طارق شاہ

محفلین
گہرے سُروں میں عرضِ نوائے حیات کر
سینے پہ ایک درد کی سِل رکھ کے بات کر

امجد، نشاطِ زیست اِسی کشمکش میں ہے
مرنے کا قصد، جینے کا عزم، ایک سات کر

مجید امجد
 

طارق شاہ

محفلین
پھر دَمِ دِید رہے چشم ونظر دِید طلب
پھر شبِ وصْل مُلاقات نہ ہونے پائی
فیض سر پر جو ہر اِک روز قیامت گُزری!
ایک بھی، روزِ مکافات نہ ہونے پائی
فیض احمد فیض
 

طارق شاہ

محفلین
ناتوانی مِری دیکھی، تو مصوّر نے کہا
ڈر ہے، تم بھی کہیں کِھنچ آؤ نہ تصویر کے ساتھ
میں ہُوں کیا چیز، جو اُس طرز پہ جاؤں اکبر
ناسخ و ذوق بھی، جب چل نہ سکے میر کے ساتھ
اکبرالٰہ آبادی
 

طارق شاہ

محفلین
دلِ پُر داغ کو ارماں، کہ گلے اُن کے لگے
اُن کو یہ ڈر، کہ گلے کا یہ کہِیں ہار نہ ہو



اکبرالٰہ آبادی
 

طارق شاہ

محفلین
کیا وہ مستی، کہ دَمِ چند میں تکلیف شُمار
مست وہ ہے کہ قیامت میں بھی ہشیار نہ ہو



اکبرالٰہ آبادی
 

طارق شاہ

محفلین
جان فرقت میں نہ نِکلے، تومُجھے کیوں ہوعزیز!
دوست وہ کیا، جو مُصیبت میں مددگار نہ ہو



اکبرالٰہ آبادی
 

طارق شاہ

محفلین
بَلا میں پھنستا ہےدل، مُفت جان جاتی ہے
خُدا کسی کو نہ لیجائے اُس گلی کی طرف

نِگاہ پڑتی ہے اُن پرتمام محفل کی
جو آنکھ اُٹھا کے نہیں دیکھتے کسی کی طرف

ذرا سی دیر ہی ہو جائے گی تو کیا ہوگا
گھڑی گھڑی نہ اُٹھاؤ نظر گھڑی کی طرف

اکبرالٰہ آبادی
 

طارق شاہ

محفلین
خوشا اشارہٴ پیہم، زہے سکوتِ نظر
دراز ہوکے فسانہ ہے مختصر پھر بھی
خراب ہو کے بھی سوچا کئے ترے مہجور
یہی کہ تیری نظر ہے تِری نظر پھر بھی
فراق گورکھپوری
 

طارق شاہ

محفلین
تہوں میں دل کے جہاں کوئی واردات ہوئی
حیاتِ تازہ سے، لبریز کائنات ہوئی
تم ہی نے باعثِ غم بارہا کِیا دریافت!
کہا تو رُوٹھ گئے، یہ بھی کوئی بات ہوئی
فراق گورکھپوری
 

طارق شاہ

محفلین
اب تو لے دے کے وہی شخص بچا ہے مُجھ میں
مُجھ کو مُجھ سے جو جُدا کر کے چُھپا ہے مُجھ میں
کرشن بہاری نُورؔ لکھنوی
 

طارق شاہ

محفلین
گواہ چاہ رہے تھے وہ بے گُناہی کا!
زباں سے کہہ نہ سکا کچُھ ، خُدا گواہ کے بعد
کرشن بہاری نُورؔ لکھنوی
 

طارق شاہ

محفلین
اُس تشنہ لب کی نیند نہ ٹُوٹے دُعا کرو
جس تشنہ لب کو خواب میں دریا دِکھائی دے
کیا حُسن ہے، جمال ہے، کیا رنگ رُوپ ہے
وہ بِھیڑ میں بھی جائے تو تنہا دِکھائی دے
کرشن بہاری نُورؔ لکھنوی
 

طارق شاہ

محفلین
تشنگی کے بھی مقامات ہیں کیا کیا، یعنی
کبھی دریا نہیں کافی، کبھی قطرہ ہے بہت

کرشن بہاری نُورؔ لکھنوی
 

طارق شاہ

محفلین
جسے آپ گِنتے تھے آشنا، جسے آپ کہتے تھے باوفا
میں وہی ہُوں مومنِؔ مُبتلا، تمہیں یاد ہو، کہ نہ یاد ہو
مومن خان مومنؔ
× مقطع میں شتر گربہ نہیں​
یہاں آپ بمعنی خود ہی ہیں:)
 

طارق شاہ

محفلین
میرا غم نہ کر میرے چارہ گر، تیری چارہ جوئی بجا مگر
میرا درد ہے میری زندگی، مجھے دردِ دل کی دوا نہ دے
میں وہاں ہُوں اب میرے ناصحا! کہ جہاں خُوشی کا گُزر نہیں
میرا غم حدّوں سے گزر گیا، مجھے اب خُوشی کی دُعا نہ دے
گنیش بہاری طرزؔ
 

طارق شاہ

محفلین
وہ خاکِ پاک، ہم اہلِ محبّت کو ہے اکسیر
سرِ مقتل جہاں نیزوں پہ سر تولے گئے تھے
افتخار عارفؔ
 

طارق شاہ

محفلین
زُلف سے، چشم و لب و رُخ سے، کہ تیرے غم سے
بات یہ ہے کہ دِل و جاں کو رہا کِس سے کریں
ہاتھ اُلجھے ہوئے ریشم میں پھنْسا بیٹھے ہیں
اب بتا! کون سے دھاگے کو جُدا کِس سے کریں
ایوب خاورؔ
 
Top