طارق شاہ

محفلین
اس فتنہ خُو کے در سے اب اٹھتے نہیں اسد!
اِس میں ہمارے سر پہ قیامت ہی کیوں نہ ہو!

مرزا غالب
 

طارق شاہ

محفلین
ہمارے ذہن میں اِس فکر کا ہے نام وصال
کہ گر نہ ہو، تو کہاں جائیں، ہو تو کیوں کر ہو!

مجھے جُنوں نہیں، غالب! ولے بقولِ حضور
"فرقِ یار میں تسکین ہو تو کیوں کر ہو!"

مرزا غالب
 

طارق شاہ

محفلین
شہرِ جمال کے خس و خاشاک ہوگئے
اب آئے ہو جب آگ سے ہم خاک ہوگئے

اے ابرِ خاص، ہم پہ برسنے کا اب خیال
جل کر تِرے فراق میں جَب راکھ ہو گئے

پروین شاکر
 

طارق شاہ

محفلین
دِل کو مہر و مہ و انجُم کے قرِیں رکھنا ہے
اِس مُسافر کو مگر خاک نشِیں رکھنا ہے

پروین شاکر
 

طارق شاہ

محفلین
حُسنِ بے تماشا کی، دُھوم کیا معمّا ہے
کان بھی ہیں نا محرم، آنکھ بھی ترَستِی ہے
چتوَنوں سے مِلتا ہے، کچھ سراغ باطن کا
چال سے تو کافر پر سادگی برستی ہے
یاس، یگانہ، چنگیزی
 

طارق شاہ

محفلین
روندے ہے نقشِ پا کی طرح خلق ياں مجھے
اے عمررفتہ چھوڑ گئی تو کہاں مجھے
اے گُل تو رخت باندھ ، اُٹھاؤں ميں آشياں
گُل چِيں تجھے نہ ديکھ سکے باغباں مجھے
میر درد
 

طارق شاہ

محفلین
باندھے کمر سحر گہ ، آیا ہے میرے کِیں پر
جو حادثہ فلک سے، نازل ہُوا زمِیں پر
آخر کو ہے خُدا بھی تو، اے میاں جہاں میں
بندے کے کام کچھ کیا موقوُف ہیں تُمِھیں پر

میر تقی میر
 

طارق شاہ

محفلین
قفس میں ذکرِ نشیمن گناہِ بے لذّت
نہ ہم زباں، نہ کوئی ہم خیال ہوتا ہے

بہارِ عُمرِ گزشتہ پہ بھیجیے صلوات
خِزاں میں ذکرِ خِزاں حسبِ حال ہوتا ہے

یاس، یگانہ، چنگیزی
 

فرقان احمد

محفلین
جگر مراد آبادی کے اشعار

ہر حقیقت کو باندازِ تماشا دیکھا
خوب دیکھا ترے جلوؤں کو مگر کیا دیکھا
جستجو میں تری یہ حاصل سودا دیکھا
ایک اک ذرہ کا آغوشِ طلب وا دیکھا
آئینہ خانہء عالم میں کہیں کیا دیکھا
تیرے دھوکے میں خود اپنا ہی تماشا دیکھا
ہم نے ایسا نہ کوئی دیکھنے والا دیکھا
جو یہ کہہ دے کہ ترا حسن سراپا دیکھا
دلِ آگاہ میں کیا کہیے جگر، کیا دیکھا
لہریں لیتا ہوا اک قطرے میں دریا دیکھا


مکاں و لامکاں سے بھی گزر جا
فضائے شوق میں پروازِ خس کیا؟
اجل خود زندگی سے کانپتی ہے
اجل کی زندگی پر دسترس کیا؟



خیر اس کو نظر آیا، شر اُس کو نظر آیا
آئینے میں خود عکسِ آئینہ نگر آیا
یہ محفلِ ہستی بھی کیا محفلِ ہستی ہے!
جب کوئی اُٹھا پردہ، میں خود ہی نظر آیا


چھیڑا تھا جسے پہلے پہل تیری نظر نے
اب تک ہے، وہ اک نغمہء بے ساز و صدا یاد
 

طارق شاہ

محفلین
وحشتیں کچھ اِس طرح اپنا مقدر ہوگئیں
ہم جہاں پہنچے، ہمارے ساتھ ویرانے گئے

کیا قیامت ہے کہ خاطر کشتۂ شب بھی تھے ہم
صبح بھی آئی تو مجرم ہم ہی گردانے گئے

خاطرغزنوی
 

طارق شاہ

محفلین
جتنے ادنیٰ ہیں سمجھتا ہُوں میں اعلیٰ ناسخ
صاف خورشید نظر آتے ہیں ذرّات مجھے
امام بخش ناسخ
 

طارق شاہ

محفلین
جب جہل پر ہو لُطفِ فروانِ خسروی
کیا جستجوئے حکمت وعرفاں کرے کوئی

جاری ہو موجِ خُوں جو ہراِک زخمِ شاخ سے
کیونکر مجالِ جشنِ بہاراں کرے کوئی

حُسین انجُم
 
Top