زیرک

محفلین
میں بہت سوچ کے بچھڑا تھا محرّم میں حسیب
میں نے اس شخص کو رونے کی سہولت دی تھی
حسیب الحسن​
 

زیرک

محفلین
ہمارے ذہن میں لاوا تھا پھوٹ بہنے کو
اگر یہ شعر نہ ہوتے تو زلزلہ آتا
حسیب الحسن​
 

زیرک

محفلین
بہت دن ہو گئے اداس غزل لکھے ہوئے تم کو
ردیف و قافیے گم ہیں، یا وصلِ یار میں گم ہو​
 

زیرک

محفلین
پکار رہا تھا زبانِ حال سے ٹوٹے بِکھرے مکان کا ملبہ
یہ گھر زلزلے سے نہیں مکِینوں کی رنجِش سے گِرا ہے​
 

زیرک

محفلین
خود فریبی کی انہیں عادت سی شاید پڑ گئی
ہر نئے رہزن کو سینے سے لگا لیتے ہیں لوگ
قتیل شفائی​
 

رباب واسطی

محفلین
‏اترتا ہے سلیقے سے یہ جذبہ بھی امیروں پر
"دسمبر "ایک فیشن ہے سجاوٹ کے جزیروں پر
کسی رشتے کا کیا رشتہ ؟ بدلتے اس کیلنڈر سے
مہینے سب برابر ہیں محبت کے فقیروں پر
 

زیرک

محفلین
بہت سے غم دسمبر میں دسمبر کے نہیں ہوتے
اسے بھی جون کا غم تھا، مگر رویا دسمبر میں​
 

زیرک

محفلین
احساس کے جھونکے ٹھنڈے ہیں، اک برف ہے ان کے سینوں میں
اس شہر کے بسنے والوں میں، ہر شخص دسمبر لگتا ہے​
 

جان

محفلین
ہم تم پہ مر مٹے تو یہ کس کا قصور ہے
آئینہ لے کے ہاتھ میں خود فیصلہ کرو
شاہد کبیر
 

زیرک

محفلین
کسی کو دیکھوں تو ماتھے پہ ماہ و سال ملیں
کہیں بکھرتی ہوئی دھول میں سوال ملیں
ذرا سی دیر دسمبر کی دھوپ میں بیٹھیں
یہ فرصتیں ہمیں شاید نہ اگلے سال ملیں​
 
Top