غزل
بنا کےپھر مجھے تازہ خبر نہ جاؤ تم
اب آگئے ہو تو پھر چھوڑ کر نہ جاؤ تم
میں ڈرتے ڈرتے سناتا ہوں اپنے اندیشے
میں کُھل کے یوں نہیں کہتا کہ ڈر نہ جاؤ تم
کہاں کہاں مجھے ڈھونڈو گے پرزہ پرزہ ہوں
مجھے سمیٹنے والے! بکھر نہ جاؤ تم
بڑھے ہو تم مری جانب تو ڈر یہ لگتا ہے
مرے قریب سے آکر گزر نہ جاؤ تم...