ظہیراحمد کی شاعری

  1. ظہیراحمدظہیر

    یہ طبیعت مجھے اپنا نہیں بننے دیتی

    یہ طبیعت مجھے اپنا نہیں بننے دیتی جیسے سب ہیں مجھے ویسا نہیں بننے دیتی آنکھ ایسی ہے کہ دیکھے نہیں جاتے حالات سوچ ایسی ہے کہ اندھا نہیں بننے دیتی دُوراندر سے کہیں ایک اُبھرتی ہوئی چیخ میرے احساس کو بہرا نہیں بننے دیتی ظلم ایسا ہے کہ دنیا کی زبانیں خاموش یہ خموشی مجھے گونگا نہیں بننے دیتی...
  2. ظہیراحمدظہیر

    سارا سفر ہے کرب ِ مسلسل کی قید میں

    سارا سفر ہے کرب ِ مسلسل کی قید میں چھوٹی سی جیسے کشتی ہو بوتل کی قید میں اپنے بدن کی آگ میں جل کر مہک اٹھی خوشبو جو بیقرار تھی صندل کی قید میں اے فصل ِ تشنہ کام نویدِ رہائی دے پانی کو دیکھ کب سے ہے بادل کی قید میں گہرائی اُس کے ضبطِ الم کی بھی دیکھئے ساگر رکھے ہوئے ہے...
  3. ظہیراحمدظہیر

    گرمئ شہر ِ ضرورت سے پگھل جاؤ گے

    گرمئ شہر ِ ضرورت سے پگھل جاؤ گے نہیں بدلے ہو ابھی تک تو بدل جاؤ گے اس چمکتے ہوئے دن کو نہ سمجھنا محفوظ اپنے سائے سے بھی نکلو گے تو جل جاؤ گے گردش ِ وقت ہے آتی ہے سبھی کے سر پر وقت گزرے گا تو اس سے بھی نکل جاؤ گے یہ محبت کے مقامات ہیں اے جان ِ نظر اتنا محتاط چلو گے تو...
  4. ظہیراحمدظہیر

    دیدہ وروں سے کور نگاہی ملی مجھے

    دیدہ وروں سے کور نگاہی ملی مجھے ایسے پڑھے ورق کہ سیاہی ملی مجھے کس دشت میں چلا ہوں کہ احساس مر گیا صورت دکھائی دی نہ صدا ہی ملی مجھے خالی پیالے سینکڑوں ہاتھوں میں ہر طرف تشنہ لبی اور ایک صراحی ملی مجھے ہمزاد میرا مرگیا میری انا کے ساتھ ورثے میں تخت ِ ذات کی شاہی ملی مجھے اپنی نظر...
  5. ظہیراحمدظہیر

    دعا

    دُعا مری نظر میں تری آرزو نظر آئے مجھے وہ آنکھ عطا کر کہ تو نظر آئے کلام اپنا سمودے وجود میں ایسا کہ میری چپ میں تری گفتگو نظر آئے میں جب بھی آئنہ دیکھوں غرورِ ہستی کا تو ایک عکسِ عدم روبرو نظر آئے ہٹادے آنکھ سے میری یہ خواہشات کے رنگ جو چیز جیسی ہے بس ہوبہو نظر آئے ہجوم ِشہر...
  6. ظہیراحمدظہیر

    اِس کی بنیاد میں پتھر ہے پرانے گھر کا

    اِس کی بنیاد میں پتھر ہے پرانے گھر کا قرض کتنا نئے گھر پر ہے پرانے گھر کا چین سے سوتا ہوں یادوں کا بنا کر تکیہ راس اب تک مجھے بستر ہے پرانے گھر کا دوستو !میں تو نہیں بدلا ہوں گھر بدلا ہے نئی چوکھٹ میں کُھلا در ہے پرانے گھر کا نئی بستی کا کبھی نقطہء آغاز تھا یہ شہر کے بیچ جو منظر ہے...
  7. ظہیراحمدظہیر

    معیار ہے سخن تو حوالہ نہ دیکھئے

    معیار ہے سخن تو حوالہ نہ دیکھئے شاخِ ہنر کو دیکھئے ، شجرہ نہ دیکھئے شاید اسی طرح مجھے پہچان جائیں آپ لہجے کا رنگ دیکھئے ، چہرہ نہ دیکھئے رستے ہیں میرے گھر کے محبت کے راستے دل کی کتاب کھولئے ، نقشہ نہ دیکھئے سینہ ہے داغ داغ مگر دل تو صاف ہے گھر دیکھئے جناب ، علاقہ نہ دیکھئے دیواریں پڑھ رہے...
  8. ظہیراحمدظہیر

    آنکھوں سےفکرِ ذات کے منظر چلے گئے

    آنکھوں سےفکرِ ذات کے منظر چلے گئے اشکوں کے بے کنار سمندر چلے گئے محور سے جب ہٹا گئی مرکز گریزیت ذرے سے آفتاب کے جوہر چلے گئے دھیمی ہوئی ہے عشق فسوں گر کی جب سے آنچ حسن ِ ستم طراز کے تیور چلے گئے دیکھی جو خوش عقیدگی اہل ِ زمین کی کچھ لوگ آسماں کے برابر چلے گئے - ق - بے خال وخد...
  9. ظہیراحمدظہیر

    طعنہء سود و زیاں مجھ کو نہ دینا ، دیکھو

    طعنہء سود و زیاں مجھ کو نہ دینا ، دیکھو میرے گھر آؤ کبھی ، میرا اثاثہ دیکھو در کشادہ ہے تمہارا مجھے تسلیم مگر مجھ میں جھانکو ،کبھی قد میری انا کا دیکھو بس سمجھ لینا اُسے میری سوانح عمری سادہ کاغذ پہ کبھی نام جو اپنا دیکھو اِس خموشی کو مری ہار سمجھنے والو! بات سمجھو ، مرے دشمن کا نشانہ...
  10. ظہیراحمدظہیر

    عذابِ ہجرتِ پیہم سنبھلنے دے

    دو دہائیوں پہلے جب راقم ترکِ وطن کرکے بسلسلہ روزگار امریکا آیا تو اس کا حال اس صورتحال سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھا جو ۱۹۴۷ میں پاکستان ہجرت کے وقت والدین کو درپیش تھی ۔ اس عالم اور کیفیت کے کچھ اشعار پیشِ خدمت ہیں ۔ عذابِ ہجرتِ پیہم سنبھلنے دے حصارِ بے مکانی سے نکلنے دے غبار ِ بے سروسامانی...
  11. ظہیراحمدظہیر

    آتشِ رنج و الم ، سیلِ بلا سامنے ہے

    آتشِ رنج و الم ، سیلِ بلا سامنے ہے زندگی جلوہ نما ہے کہ قضا سامنے ہے شعلہء جاں ہے مرا اور ہوا سامنے ہے پیکر ِ خاک میں ہونے کی سزا سامنے ہے ہر طرف ڈھونڈنے والو! اُسے دیکھو تو سہی وہ کہیں اور نہیں ہے بخدا سامنے ہے منعکس ہوں میں زمانے میں ، زمانہ مجھ میں خود بھی آئینہ ہوں اور عکس نما سامنے ہے...
  12. ظہیراحمدظہیر

    ہمیں نسبت جو کسی در سے نہ دربار سے ہے

    ہمیں نسبت جو کسی در سے نہ دربار سے ہے یہ عنایت بھی ترے نام کی سرکار سے ہے بادبانوں کا تکلف نہیں کشتی میں مری آسرا مجھ کو ہوا سے نہیں پتوار سے ہے گونج رہ جائے گی میری جو صدا مر بھی گئی اتنی امید مجھے شہر کی دیوار سے ہے شورِ زنجیر بپا رکھتی ہے جکڑی ہوئی امید دل کی دھڑکن میں ترنم اسی جھنکار...
  13. ظہیراحمدظہیر

    حبسِ جاں رونے سے کچھ اور گراں ہوتا ہے

    حبس جاں رونے سے کچھ اور گراں ہوتا ہے آگ بجھتی ہے تو انجام دھواں ہوتا ہے تاب گفتار ہی باقی ہے نہ موضوع سخن اب ملاقات کا ماحول زباں ہوتا ہے کھینچ لائی ہے ضرورت مجھے کن راہوں میں ہر قدم پر مجھے دھوکےکا گماں ہوتا ہے غیرسے میری شکایت کا مجھے رنج نہیں گلہ شکوہ بھی محبت کا نشاں ہوتا ہے کارِ...
  14. ظہیراحمدظہیر

    وہ بھی اب مجھ کو بہ اندازِ زمانہ مانگے

    وہ بھی اب مجھ کو بہ اندازِ زمانہ مانگے برسرِ عام محبت کا تماشا مانگے جسے پندار مرے ظرفِ محبت نے دیا اب وہ پہچان محبت کے علاوہ مانگے میں تو اسرافِ محبت میں ہوا ہوں مقروض دوستی ہر گھڑی پہلے سے زیادہ مانگے راحتِ وصل بضد ہے کہ بھلادوں ہجراں چند لمحےمجھے دے کر وہ زمانہ مانگے مدّتیں گذریں...
  15. ظہیراحمدظہیر

    اے وقت ذرا تھم جا ، یہ کیسی روانی ہے

    اے وقت ذرا تھم جا ، یہ کیسی روانی ہے آنکھوں میں ابھی باقی اک خوابِ جوانی ہے کیا قصہ سنائیں ہم اس عمرِ گریزاں کا فرصت ہے بہت تھوڑی اور لمبی کہانی ہے اک راز ہے سینے میں ، رکھا نہیں جاتا اب آکر کبھی سن جاؤ اک بات پرانی ہے سچے تھے ترے وعدے ، سچے ہیں بہانے بھی بس ہم کو شکایت کی عادت ہی...
  16. ظہیراحمدظہیر

    دل تو پتھر ہوئے ، غم پھر بھی کسک دیتے ہیں

    دل تو پتھر ہوئے، غم پھر بھی کسک دیتے ہیں آگ اتنی ہو تو پتھر بھی چمک دیتے ہیں خاک گرتی ہے جو سر پر غمِ دنیا کی کبھی نام لے کر ترا ہولے سے جھٹک دیتے ہیں زندگی جب بھی نظر آتی ہے عریاں اپنی ہم ترے درد کی پوشاک سے ڈھک دیتے ہیں یاد کے پھول کتابوں میں دبے رہنے دو خشک ہوجائیں تو کچھ اور مہک...
  17. ظہیراحمدظہیر

    ہم خاک نشینوں کو نئی خاک ملی ہے

    ہم خاک نشینوں کو نئی خاک ملی ہے جو چھوڑ کر آئے وہی املاک ملی ہے ہم سادہ روش لوگ بدلتے نہیں چولے میلی ہی نہیں ہوتی وہ پوشاک ملی ہے پہنے ہوئے پھرتے ہیں تہِ جبہ و دستار در سے جو ترے خلعتِ صد چاک ملی ہے رکھی ہے بصارت کی طرح دیدہِ تر میں قسمت سےہمیں نعمتِ نمناک ملی ہے سونے کے بدل بکتی ہے بازار...
  18. ظہیراحمدظہیر

    اپنی قربت کے سب آثار بھی لیتے جانا

    اپنی قربت کے سب آثار بھی لیتے جانا اب جو جاؤ در و دیوار بھی لیتے جانا چھوڑ کر جا ہی رہے ہو تو پھر اپنے ہمراہ ساتھ رہنے کا وہ اقرار بھی لیتے جانا دکھ تو ہوگا مگر احساس ہو کم کم شاید جاتے جاتے مرا پندار بھی لیتے جانا بیخودی مجھ سے مری چھین کے جانیوالے آگہی کے کڑے آزار بھی لیتے جانا جشنِ...
  19. ظہیراحمدظہیر

    کچھ جرم نئے اور مرے نام لگادو

    کچھ جرم نئے اور مرے نام لگا دو باقی ہے اگر کوئی تو الزام لگا دو کیوں کرتے ہو دربارِ عدالت کا تکلف جو حکم لگانا ہے سر ِ عام لگا دو افسانہ ہمارا ہے ، قلم سارے تمہارے عنوان جو چاہو بصد آرام لگا دو دیوانوں کو پابندِ سلاسل نہ کرو تم ذہنوں میں بس اندیشہء انجام لگادو جب آہی گئے برسرِ...
  20. ظہیراحمدظہیر

    پندار کی ویران سرا میں نہیں رہتے

    پندار کی ویران سرا میں نہیں رہتے ہم خاک پہ رہتے ہیں خلامیں نہیں رہتے قامت بھی ہماری ہے ، لبادہ بھی ہمارا مانگی ہوئی دستار و قبا میں نہیں رہتے ہم کشمکشِ دہر کے پالے ہوئے انسان ہم گریہ کناں کرب و بلا میں نہیں رہتے خاشاکِ زمانہ ہیں ، نہیں خوف ہمیں کوئی آندھی سے ڈریں وہ جو ہوا میں نہیں رہتے...
Top