ہمیں نسبت جو کسی در سے نہ دربار سے ہے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ہمیں نسبت جو کسی در سے نہ دربار سے ہے
یہ عنایت بھی ترے نام کی سرکار سے ہے

بادبانوں کا تکلف نہیں کشتی میں مری
آسرا مجھ کو ہوا سے نہیں پتوار سے ہے

گونج رہ جائے گی میری جو صدا مر بھی گئی
اتنی امید مجھے شہر کی دیوار سے ہے​

شورِ زنجیر بپا رکھتی ہے جکڑی ہوئی امید
دل کی دھڑکن میں ترنم اسی جھنکار سے ہے

سرخیاں حسبِ خبر ہیں ، نہ خبر حسبِ حال
پڑھنے والوں کو گلہ آج کے اخبار سے ہے

عشق کی دین نہیں،جبرِضرورت ہے یہ ہجر
خلعتِ درد خریدی ہوئی بازار سے ہے

ظہیر احمدظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۵

(’’کسی سے آسرا ہونا‘‘ کراچی اور حیدرآباد کا محاورہ ہے بمعنی کسی سے مدد کی امید ہونا ۔)
ٹیگ: فاتح سید عاطف علی محمد تابش صدیقی الف عین
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ!
خوب است۔
خوبصورت۔:)
بہت شکریہ خواہرم! بہت ممنون ہوں ۔
یہ آپ اہرامِ مصر سے کیا نکال لائیں ۔ ۲۰۱۵ میں محفل کی رکنیت اختیار کرنے کے بعد جب غزلیں ایک جگہ جمع کرنا شروع کی تھیں تو یہ ان اولین ہفتوں کی پوسٹ ہے ۔:)
 

شرمین ناز

محفلین
ہمیں نسبت جو کسی در سے نہ دربار سے ہے
یہ عنایت بھی ترے نام کی سرکار سے ہے

بادبانوں کا تکلف نہیں کشتی میں مری
آسرا مجھ کو ہوا سے نہیں پتوار سے ہے

گونج رہ جائے گی میری جو صدا مر بھی گئی
اتنی امید مجھے شہر کی دیوار سے ہے​

شورِ زنجیر بپا رکھتی ہے جکڑی ہوئی امید
دل کی دھڑکن میں ترنم اسی جھنکار سے ہے

سرخیاں حسبِ خبر ہیں ، نہ خبر حسبِ حال
پڑھنے والوں کو گلہ آج کے اخبار سے ہے

عشق کی دین نہیں،جبرِضرورت ہے یہ ہجر
خلعتِ درد خریدی ہوئی بازار سے ہے

ظہیر احمدظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۵

(’’کسی سے آسرا ہونا‘‘ کراچی اور حیدرآباد کا محاورہ ہے بمعنی کسی سے مدد کی امید ہونا ۔)
ٹیگ: فاتح سید عاطف علی محمد تابش صدیقی الف عین
:great::great:
 
Top