حبسِ جاں رونے سے کچھ اور گراں ہوتا ہے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
حبس جاں رونے سے کچھ اور گراں ہوتا ہے
آگ بجھتی ہے تو انجام دھواں ہوتا ہے

تاب گفتار ہی باقی ہے نہ موضوع سخن
اب ملاقات کا ماحول زباں ہوتا ہے

کھینچ لائی ہے ضرورت مجھے کن راہوں میں
ہر قدم پر مجھے دھوکےکا گماں ہوتا ہے

غیرسے میری شکایت کا مجھے رنج نہیں
گلہ شکوہ بھی محبت کا نشاں ہوتا ہے

کارِ دنیا کا ہمالہ ہے مجھے ریت کا ڈھیر
دل نہ چاہے تو یہی کوہ گراں ہوتا ہے


ربطِ محکم بھی ضروری ہے صد اخلاص کیساتھ
معجزہ صرف دعاؤں سے کہاں ہوتا ہے

جس عمارت میں توازن نہ دکھائی دے ظہیر
اُس کی بنیاد میں اک سنگِ زیاں ہوتا ہے

ظہیر احمد ظہیر ۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۵

ٹیگ: فاتح سید عاطف علی محمد تابش صدیقی الف عین
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب!

اچھی غزل ہے۔


اس شعر سے مفہوم اخذ نہیں کر پایا میں۔ یہاں 'زباں' کے کیا معنی لئے جائیں؟

تاب گفتار ہی باقی ہے نہ موضوع سخن​
اب ملاقات کا ماحول زباں ہوتا ہے
محمداحمد بھائی ۔ یہ شعر قدرےمبہم ہے۔ براہِ راست معنی تو شاید اس کے کچھ نہ ہوں ۔ لیکن پہلے مصرع میں جو منظر تصویر کرنے کی کوشش کی ہے اُسی سے اس شعرکا سرا ملتا ہے ۔ نہ تو بات کرنے کی ہمت ہی رہی ہے اور نہ بات کرنے کو کچھ رہ ہی گیا ہے۔ اب ایسے میں ملنے والے بس خاموش بیٹھے رسمِ ملاقات ہی نبھارہے ہیں ۔ اور یہی خاموشی اب زبان (گفتگو) بن گئی ہے ۔ اور اسی چپ کے ذریعے اب افہام و تفہیم یا "مزاج پرسی" ہورہی ہے ۔ وغیرہ وغیرہ۔ ماحول سے زیادہ مناسب لفظ نہیں مل سکا تھا ۔
احمد بھائی ،کوشش تو کرتا ہوں کہ اس طرح کے اشعار نکال دوں لیکن بعض اوقات فیصلہ کرنا دشوار ہوجاتا ہے اور ایک آدھ اشعار مبہم قسم کے رہ ہی جاتے ہیں۔ اور جب آپ جیسے سخنور اشارہ کریں تو پھر اندازہ ہوتا ہے کہ شعر اتنا واضح نہیں جتنا میں سمجھ رہا تھا ۔ اگر آپ کہیں گے تو اسے نکال دیا جائے گا۔
بھائی ، اتنی محبت اور توجہ سے غزل دیکھنے اور اس نشاندہی کے لیے انتہائی ممنون ہوں ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
تفصیلی جواب کا بہت شکریہ، ظہیر بھائی۔

ساتھ ساتھ بتاتا چلوں کہ سخنور تو بہت دور کی بات ہے میں تو خود کو ٹھیک طرح سے مبتدی بھی نہیں سمجھتا۔ اور یہ بھی کہ اگر میری نام نہاد سخن فہمی کی بنیاد پر آپ نے غزلیات سے اشعار نکالنا شروع کردیے تو بہت جلد آدھا دیوان جلا وطن ہو جائے گا۔ :)

آپ سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کے خیال سے جو بات دل میں آئی وہ بلا جھجک لکھ ماری۔

تاب گفتار ہی باقی ہے نہ موضوع سخن
اب ملاقات کا ماحول زباں ہوتا ہے
محمداحمد بھائی ۔ یہ شعر قدرےمبہم ہے۔ براہِ راست معنی تو شاید اس کے کچھ نہ ہوں ۔ لیکن پہلے مصرع میں جو منظر تصویر کرنے کی کوشش کی ہے اُسی سے اس شعرکا سرا ملتا ہے ۔ نہ تو بات کرنے کی ہمت ہی رہی ہے اور نہ بات کرنے کو کچھ رہ ہی گیا ہے۔ اب ایسے میں ملنے والے بس خاموش بیٹھے رسمِ ملاقات ہی نبھارہے ہیں ۔ اور یہی خاموشی اب زبان (گفتگو) بن گئی ہے ۔ اور اسی چپ کے ذریعے اب افہام و تفہیم یا "مزاج پرسی" ہورہی ہے ۔ وغیرہ وغیرہ۔ ماحول سے زیادہ مناسب لفظ نہیں مل سکا تھا ۔

آپ کی وضاحت سے اب شعر سمجھ آگیا ہے۔ یوں تو بات سمجھ آجانی چاہیے تھی مجھے تاہم نہیں آئی اسے میری کج فہمی سمجھیے۔

شاید اس کی وجہ یہ رہی کہ میں لفظ 'ماحول' کا ربط مصرعہ اولیٰ سے جوڑنے میں ناکام رہا۔ یعنی اگر 'ماحول' کی جگہ 'یہ ماحول' یا 'یہی ماحول' ہوتا تو بات سمجھنے میں آسانی ہوجاتی۔ غور کرنے پر یہ مصرعہ ذہن میں آیا:

اب جو مِلیے تو یہ ماحول زباں ہوتا ہے​

تاہم یہ تجویز نہیں ہے اور اصلاح تو ہرگز نہیں ہے کہ آپ بہت خوب کلام کہتے ہیں اور آپ کے اکثر کلام پر مجھے رشک آتا ہے۔

شاد آباد رہیے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
۔۔۔۔۔۔۔۔ لفظ 'ماحول' کا ربط مصرعہ اولیٰ سے جوڑنے میں ناکام رہا۔ یعنی اگر 'ماحول' کی جگہ 'یہ ماحول' یا 'یہی ماحول' ہوتا تو بات سمجھنے میں آسانی ہوجاتی۔ غور کرنے پر یہ مصرعہ ذہن میں آیا:

اب جو مِلیے تو یہ ماحول زباں ہوتا ہے​

بہت شکریہ احمد بھائی ، تجویز نہایت عمدہ ہے!! آپ کا تجزیہ بالکل میری سوچ کا عکاس ہے۔ دوسرے مصرع میں مصرع اول سے براہِ راست ربط تو خاموشی یا سکوت کے استعمال ہی سے پیدا ہوسکتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ الفاظ باندھنا مصرع کی اس صورت میں ممکن نہیں ہیں ۔ ’’یہ ماحول‘‘ کے استعمال سے مصرع اول سے ربط پیدا ہوجاتا ہے اور شعر مبہم نہیں رہتا ۔ آپ ہی کی اس تجویز سے یہ ایک دو صورتیں میرے ذہن میں آتی ہیں ۔ دیکھ لیجیے:
تابِ گفتار ہی باقی ہے نہ موضوعِ سخن ۔۔ اب ملاقات میں یہ کرب زباں ہوتا ہے
تابِ گفتار ہی باقی ہے نہ موضوعِ سخن ۔۔ اب ملاقات میں اک درد زباں ہوتا ہے

احمد بھائی ، یہ بہت پرانی غزلیں ہیں ۔ ان کو بس جوں کا توں لکھ دیا ہے ۔ ان پر نظرِ ثانی کے لئے تو بہت وقت چاہیئے جو ممکن نہیں اور نہ ہی خود میں اتنی ہمت پاتا ہوں ۔ یہ ساری چیزیں پہلی دفعہ اردو محفل ہی میں شائع کررہا ہوں ۔ آپ نے اتنی محبت اور توجہ سے دیکھا ہے اس کے لئے شکریے کے الفاظ نہیں ۔ میرا ذاتی عقیدہ یہ ہےکہ ایک سخنور کی طرف سے پذیرائی مجمعِ عوام کی دادِ کثیر سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے۔ اللہ تعالٰی آپ کو شاد آباد رکھے ۔ اور اسی طرح مہربان رکھے ۔ بہت ممنون ہوں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی تمام تر غزلوں پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے بلکہ نظرِ مسلسل کی ضرورت ہے تاہم آپ کی طرف سے نہیں بلکہ ہم قارئین کی طرف سے۔ :) کہ آپ کی غزل جب جب پڑھیں لطف دیتی ہے اور قاری کو گرویدہ بنانے کا ہنر جانتی ہے۔

اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔

تابِ گفتار ہی باقی ہے نہ موضوعِ سخن ۔۔ اب ملاقات میں یہ کرب زباں ہوتا ہے

اس صورت میں یہ شعر بہت بہتر لگ رہا ہے۔ یعنی مجھے یہ "آپشن" اچھا لگ رہا ہے اب آپ کو جو بھی پسند ہو اختیار کر لیجے۔

دوسرے آپشن کی طرح یہاں "یہ" کی جگہ "اک" لگایا جائے تو اور اچھا معلوم ہوتاہے۔

تابِ گفتار ہی باقی ہے نہ موضوعِ سخن
اب / بس ملاقات میں اِک کرب زُباں ہوتا ہے

اگرچہ ایک ساتھ دو "ک" آنے کی صورت میں شاید کچھ صوتی حسن متاثر ہو لیکن مجھے تو ایسے بھی اچھا لگ رہا ہے۔

سدا خوش رہیے کہ مجھ ایسے ناکارہ کی بے کار باتیں بھی خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں آپ۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
تابِ گفتار ہی باقی ہے نہ موضوعِ سخن
بس ملاقات میں اک کرب زباں ہوتا ہے

یہ حتمی صورت ہوگئی اب۔ انشاءاللہ ای بک مین تدوین کردی جائے گی۔ بہت بہت بہت شکریہ احمد بھائی ۔ یہ ہوتا ہے فائدہ اہلِ ہنر وفن کی دوستی کا! :)
آپ قریب ہوتے تو مشاورت خوب چلتی آپ سے ۔ اسی طرح اپنی محبتوں سے نوازتے رہیئے گا ۔ بہت ممنون ہوں ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے ۔
 
تاب گفتار ہی باقی ہے نہ موضوع سخن
اب ملاقات کا ماحول زباں ہوتا ہے
محمداحمد بھائی ۔ یہ شعر قدرےمبہم ہے۔ براہِ راست معنی تو شاید اس کے کچھ نہ ہوں ۔
غیر متفق۔
غور کرنے پر یہ مصرعہ ذہن میں آیا:

اب جو مِلیے تو یہ ماحول زباں ہوتا ہے​
تاہم یہ تجویز نہیں ہے اور اصلاح تو ہرگز نہیں ہے کہ آپ بہت خوب کلام کہتے ہیں اور آپ کے اکثر کلام پر مجھے رشک آتا ہے۔
آپ ہی کی اس تجویز سے یہ ایک دو صورتیں میرے ذہن میں آتی ہیں ۔ دیکھ لیجیے:
تابِ گفتار ہی باقی ہے نہ موضوعِ سخن ۔۔ اب ملاقات میں یہ کرب زباں ہوتا ہے
تابِ گفتار ہی باقی ہے نہ موضوعِ سخن ۔۔ اب ملاقات میں اک درد زباں ہوتا ہے
دوسرے آپشن کی طرح یہاں "یہ" کی جگہ "اک" لگایا جائے تو اور اچھا معلوم ہوتاہے۔

تابِ گفتار ہی باقی ہے نہ موضوعِ سخن
اب / بس ملاقات میں اِک کرب زُباں ہوتا ہے

اب آپ لوگ سوچیں گے کہ کیا پدی، کیا پدی کا شوربہ۔ آپ دونوں سے میری نیازمندی پرانی تو نہیں، لیکن گویا ہڈیوں میں رچ بس گئی ہے۔ محبت کی تقاضے بھی عجیب ہوتے ہیں۔ ایک جانب زباں بندی کا حکم دیتی ہے تو دوسری جانب آہوں کو ضبط سے زیادہ شدت عطا کر دیتی ہے۔ دوسری صورت بالفعل مجھے پیش ہے۔
مدعا یہ ہے کہ ظہیرؔ بھائی کا شعرِ مذکور جس صورت پہ آپ لوگ لے آئے ہیں اس میں بہت حسن سہی، مگر مجھے بھائی کے اس لہجے سے پیار ہے جو بے ساختہ اور خود رو ہے۔ مجھے اس شعر کے معنیٰ میں کوئی ایسی غرابت معلوم نہیں ہوئی کہ تنقیح کی ضرورت پڑتی۔
یہ حتمی صورت ہوگئی اب۔ انشاءاللہ ای بک مین تدوین کردی جائے گی۔
ہم تو پہلی صورت ہی میں یاد رکھیں گے۔ بعد کو کلامِ ظہیرؔ کے محققین کا ہاتھ بٹا کر اور انھیں بیش قیمت معلومات مع ثبوت پیش کر کے عند اللہ ماجور بھی ہوں گے!
 

محمداحمد

لائبریرین
راحیل بھائی!

کیا عجیب بات ہے کہ آج صبح گھر سے دفتر آتے ہوئے میں آپ کو یاد کر رہا تھا اور اُس ملاقات کو یاد کر رہا تھا جو ادب دوست بھائی کی میزبانی میں ہوئی۔ اور یہ بھی سوچ رہا تھا کہ اُس ملاقات کے بعد کوئی ربط ہی نہیں ہو سکا اور زندگی کی مصروفیات نے ایسا گھن چکر بنا دیا کہ بارہا خیال آنے کے باوجود کسی سے کوئی سلسلہ نہ جُڑ سکا۔ حد تو یہ ہے کہ اتنے قریب ہونے کے باوجود بھی میں مزید ایک ملاقات بھی ممکن نہیں بنا سکا۔

مدعا یہ ہے کہ ظہیرؔ بھائی کا شعرِ مذکور جس صورت پہ آپ لوگ لے آئے ہیں اس میں بہت حسن سہی، مگر مجھے بھائی کے اس لہجے سے پیار ہے جو بے ساختہ اور خود رو ہے۔ مجھے اس شعر کے معنیٰ میں کوئی ایسی غرابت معلوم نہیں ہوئی کہ تنقیح کی ضرورت پڑتی۔

ہم تو پہلی صورت ہی میں یاد رکھیں گے۔ بعد کو کلامِ ظہیرؔ کے محققین کا ہاتھ بٹا کر اور انھیں بیش قیمت معلومات مع ثبوت پیش کر کے عند اللہ ماجور بھی ہوں گے!

اگر ہمیں قسم کھانے کی ذرا سی بھی عادت ہوتی تو دس بارہ قسمیں ایک ساتھ کھا کر بتاتے کہ ہمارا مدعا اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ شعر کو اپنی شعر فہمی کی محدود ترین ریاست میں اس کے مقام پر فائز کر لیں۔ باقی جو کچھ ہوا وہ ظہیر بھائی کی خندہ پیشانی اور کشادہ دلی کے باعث ہوا۔ ہمارا قصور صرف اتنا ہے کہ بس بہاؤ میں بہتے گئے۔

ورنہ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ہم تو مبتدی شعراء کے کلام پر بھی کبھی بات نہیں کرتے اور نہ ہی خود کو اس کا اہل سمجھتے ہیں۔

رہی بات شاعر اور کلامِ شاعر کی تو ہم آپ سے بھی زیادہ آپ سے متفق ہیں۔ :)

شاد آباد رہیے۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
راحیل بھائی اور احمد بھائی، آپ بڑے ظالم لوگ ہیں ۔ :):):)ایسی ایسی اچھی باتیں لکھی ہیں کہ انہیں پڑھ کرمیں مصرع وصرع سب بھول بھال گیا اور بس یہی سوچتا رہا ہوں کہ یا الٰہی یہ کیسے محبتی لوگ ہیں ۔ صرف ایک رشتہءقرطاس و قلم کے حوالے سے اتنی توجہ ، خلوص اور محبتیں اس بیکار سے آدمی پر نچھاور ہورہی ہیں ۔ اللہ کریم آپ لوگوں کو ہمیشہ اپنی امان بخشے اور دین و دنیا کی تمام نعمتوں کو آپ دونوں پر بے زوال رکھے۔ بھائی آپ دونوں کے اس خلوص و محبت پر ایک مصرع اور غزل تو کیا ہزاروں دیوان قربان !! حقیقت یہ ہے کہ آپ دونوں خود صاحبِ اسلوب سخنور اور اصحابِ علم ہیں اس لئے آپ کی رائے کی اہمیت سے انکارتو ممکن ہی نہیں ہے لیکن زاویہء نگاہ کا فرق بھی اپنی جگہ مسلم ہے اور قابلِ احترام ہے۔

اختلافاتِ نظر خود ہیں اُجالے کا ثبوت
جس جگہ روشنی ہوگی وہیں سائے ہونگے​

مجھے تو بے انتہاخوشی اس بات کی ہے اس شعر کے بہانے آپ دونوں کی اتنی محبت اور دوستی کے اس جذبے کو اپنے گوشوارہء ہستی میں رقم کرنے کا موقع ملا۔ یہ میرے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے ۔ میری رائے میں بامقصد اور تعمیری تنقید و تبصرہ کسی بھی تخلیق کار کے لئے بہت ضروری ہوتا ہے اور اسی سے شعور اور فہم کے نئے دریچے وا ہوتے ہیں ۔ اور ان مباحث میں استفادہ باہمی ہی ہوتا ہے۔ میں احمد بھائی اور راحیل بھائی آپ دونوں کا بہت شکرگزار ہوں ۔ اسی طرح اس عاجز پر نظرِ کرم رکھیے گا۔ اللہ تعالٰی آپ دوستوں کو سلامت رکھے ۔ شاد آباد رہیں ۔

محمداحمد راحیل فاروق
 
Top