ہم خاک نشینوں کو نئی خاک ملی ہے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ہم خاک نشینوں کو نئی خاک ملی ہے
جو چھوڑ کر آئے وہی املاک ملی ہے

ہم سادہ روش لوگ بدلتے نہیں چولے
میلی ہی نہیں ہوتی وہ پوشاک ملی ہے

پہنے ہوئے پھرتے ہیں تہِ جبہ و دستار
در سے جو ترے خلعتِ صد چاک ملی ہے

رکھی ہے بصارت کی طرح دیدہِ تر میں
قسمت سےہمیں نعمتِ نمناک ملی ہے

سونے کے بدل بکتی ہے بازار میں خوشبو
پھولوں کو مگر قیمتِ خاشاک ملی ہے

رکھتے ہیں امانت کی طرح نقدیِ جاں کو
وہ لوگ جنہیں دولتِ ادراک ملی ہے

دیتے ہوئے ڈرتا ہوں اُسے جامہء الفاظ
خامے کو طبیعت مرے بے باک ملی ہے

دریا کے کنارے بھی کہیں ملتے ہیں لوگو؟
دھرتی سے کہیں سرحدِ افلاک ملی ہے؟

ظہیر احمد ظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔مئی ۲۰۱۳

ٹیگ: فاتح سید عاطف علی محمد تابش صدیقی الف عین
 
آخری تدوین:
م سادہ روش لوگ بدلتے نہیں چولے
میلی ہی نہیں ہوتی وہ پوشاک ملی ہے
واہہہہہہ بھائی کمال ہوگیا یہ تو بہت بہت بہت خوب مزا آگیا یہ شعر پڑھ کر
سونے کے بدل بیچی گئی بازار میں خوشبو
پھولوں کو مگر قیمتِ خاشاک ملی ہے
بھائی بہت عمدہ :applause: خوش رہیں آباد رہیں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
واہ ۔واہ ۔ بہت خوب۔
بازار میں خوشبو ۔والا شعر کچھ دگرگوں ہے۔ذرا توجہ دیں ۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ صرف مجھے محسوس ہوا ؟
 

الف عین

لائبریرین
غزل تو خوب ہے۔ لیکن یہ مصرع وزن سے خارج ہے، شاید ٹائپو ہے
سونے کے بدل بیچی گئی بازار میں خوشبو
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ ۔واہ ۔ بہت خوب۔
بازار میں خوشبو ۔والا شعر کچھ دگرگوں ہے۔ذرا توجہ دیں ۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ صرف مجھے محسوس ہوا ؟

غزل تو خوب ہے۔ لیکن یہ مصرع وزن سے خارج ہے، شاید ٹائپو ہے
سونے کے بدل بیچی گئی بازار میں خوشبو

عاطف بھائی اور اعجاز بھائی ۔نشاندہی کا بہت بہت شکریہ ۔ ٹائپو درست کردیا ہے ۔دراصل اشعار کو ٹائپ کرنے کا کام میری توقع سے کچھ زیادہ نکلا ۔ اکثر غزلوں کے اشعار ایک سے زیادہ کاغذوں پر برآمد ہورہے ہیں کیونکہ وہ مختلف اوقات میں لکھے گئے تھے ۔ کافی کچھ کاٹ پیٹ بھی موجود ہے۔ ایک مصرع کئی کئی طرح سے مل رہا ہے۔ احتیاط کے باوجود نقل کرنے میں غلطی ہو ہی گئی ۔ ایک دفعہ پھر آپ کا بہت بہت ممنون ہوں ۔

سونے کے بدل بکتی ہے بازار میں خوشبو
پھولوں کو مگر قیمتِ خاشاک ملی ہے
 
Top