تبسم

  1. پروفیسر شوکت اللہ شوکت

    الوداع

    تمام ساتھیوں کا نہایت مشکور ہوں. آپ لوگوں کے ساتھ اچھا وقت گزرا. اس محفل میں کچھ لوگ ہیں جو ماحول خراب کر رہے ہیں. لہذا انہیں اخلاقیات سمجھائیں. میں اپنی ذاتی مصروفیات کی وجہ سے اردو محفل کو الوداع کہہ رہا ہوں.
  2. طارق شاہ

    تبسم صُوفی غلام مصطفٰی تبسّم :::::: امیر خُسرو کی فارسی غزل 2 کا ترجمہ :::::Sufi Ghulam Mustafa Tabassum

    امیر خُسرو کی فارسی غزل کا منظُوم ترجمہ یہ رنگینئِ نو بہار اللہ اللہ یہ جامِ مَئے خوشگوار اللہ اللہ اُدھر ہیں نظر میں نظارے چَمن کے اِدھر رُو بَرُو رُوئے یار اللہ اللہ اُدھر جلوۂ مُضطرب، توبہ توبہ اِدھر یہ دِلِ بے قرار اللہ اللہ وہ لب ہیں، کہ ہے وجد میں موجِ کوثر وہ زُلفیں...
  3. فرخ منظور

    تبسم رات ابھری تری زلفوں کی درازی کیا کیا ۔ لاہوتی کی غزل کا ترجمہ از صوفی تبسم

    رات ابھری تری زلفوں کی درازی کیا کیا خواجۂ حسن نے کی بندہ نوازی کیا کیا کبھی زنجیر، کبھی مار، کبھی پھول بنی زلفِ خم دار میں تھی شعبدہ بازی کیا کیا خالِ رخسار سے میں زلفِ رسا تک پہنچا دلِ بدمست نے کی دست درازی کیا کیا ہنس دیا میں رہِ الفت کی بلا خیزی پر عقلِ عیّار نے کی فلسفہ سازی کیا کیا...
  4. فرخ منظور

    تبسم کاروان حُسن کے کیا کیا نہ نظر سے گزرے ۔ صوفی تبسمن

    کارواں، حُسن کے کیا کیا نہ نظر سے گزرے کاش وہ بھی کبھی اس راہ گزر سے گزرے کوئی صورت نظر آئی نہیں آبادی کی ہم تو ان اجڑے ہوئے شام و سحر سے گزرے سفرِ عشق میں کھلتی ہیں ہزاروں راہیں دل مسافر ہے خدا جانے کدھر سے گزرے پھر بھی کیوں خشک ہیں دامن میرے غم خواروں کے کتنے طوفان مرے دیدۂ تر سے گزرے یوں...
  5. فرخ منظور

    تبسم بجھ گئے سب اِدھر اُدھر کے چراغ ۔ صوفی تبسم

    بجھ گئے سب اِدھر اُدھر کے چراغ پھر بھی روشن ہیں چشمِ تر کے چراغ کیوں لگاتے ہو حسرتوں کا سراغ کیوں جلاتے ہو تم سحر کے چراغ کون اٹھ کر گیا ہے محفل سے بجھ گئے میرے بام و در کے چراغ دل کی تاریکیاں نہ دور ہوئیں جگمگائے بہت نظر کے چراغ شبِ ہجراں کا ساتھ کیا دیتے سو گئے شامِ مختصر کے چراغ نقش تھے...
  6. فرخ منظور

    تبسم اس ضبطِ محبت نے آخر یہ حال کیا دیوانے کا ۔ صوفی تبسم

    اس ضبطِ محبت نے آخر یہ حال کیا دیوانے کا ہر آہ میں صورت شیون کی، ہر اشک میں رنگ افسانے کا وہ سحر تھا چشمِ ساقی میں یا مے خواروں کا جذبِ دروں ہر چند بھرے ہیں جام و سبو، وہ رنگ نہیں مے خانے کا کچھ حسن و عشق میں فرق نہیں، یہ جانتے ہیں سب اہلِ نظر تھا شمع کا آغاز وہی، انجام ہے جو پروانے کا ہوں...
  7. فرخ منظور

    تبسم کتنی جدائیوں کے کھائے ہیں زخم دل پر ۔ صوفی تبسم

    کتنی جدائیوں کے کھائے ہیں زخم دل پر کتنی محبتوں کے ماتم کیے ہیں ہم نے فرقت کے آنسوؤں سے آنکھوں کو سی لیا ہے کیا کیا حسیں نظارے برہم کیے ہیں ہم نے ہر داغ تازہ شعلہ بن کر بھڑک اٹھا ہے کتنے چراغ غم کے مدھم کیے ہیں ہم نے دن اپنی زندگی کے پہلے ہی مختصر تھے کچھ خود بھی کم ہوئے ہیں کچھ کم کیے ہیں ہم...
  8. فرخ منظور

    تبسم ستم دیکھتے ہیں، کرم دیکھتے ہیں ، صوفی تبسم

    ستم دیکھتے ہیں، کرم دیکھتے ہیں محبت کے ہم زیر و بم دیکھتے ہیں بہت سن چکے نعرۂ لن ترانی اٹھا دو یہ پردہ کہ ہم دیکھتے ہیں جبیں کو میّسر کہاں سجدہ ریزی ابھی تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں ان الجھی ہوئی رہگزاروں میں بھی ہم تری زلف کے پیچ و خم دیکھتے ہیں مقاماتِ دیر و حرم سے گزر کر تماشائے دیر و حرم...
  9. فرخ منظور

    تبسم عشق بے تاب آرزو ہے ابھی ۔ صوفی تبسّم

    عشق بے تاب آرزو ہے ابھی جانے کس شے کی جستجو ہے ابھی سی لیا چاکِ جیبِ داماں کو چاکِ دل تشنۂ رفو ہے ابھی ہر نفس ایک داستان کہہ دی ہر نفس حرفِ آرزو ہے ابھی یوں نہ ٹھکراؤ درد مندوں کو دہر میں غم کی آبرو ہے ابھی تجھ سے مل کر بھی میری جانِ وفا تجھ سے ملنے کی آرزو ہے ابھی نقش تھے جتنے ہو گئے اوجھل...
  10. فرخ منظور

    تبسم رخسار و لب کی بات نہ زلف و کمر کی بات ۔ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم

    رخسار و لب کی بات نہ زلف و کمر کی بات رنگینیِ جمال ہے حسنِ نظر کی بات کیا کیا فسانہ ہائے تمنّا ہوئے دراز کیا کیا بڑھی ہے زندگیِ مختصر کی بات صبحِ شبِ وصال ہو یا شامِ انتظار آخر وہی ہے گردشِ شام و سحر کی بات سایوں میں سو گئے ہیں شبستان کے خیال اِک خواب سی ہے جلوہ گہِ بام و در کی بات رہ رہ کے...
  11. ا

    تبسم چمکی تھی کبھی جو ترے نقشِ کفِ پا سے

    رخشندہ ترے حُسن سے رُخسارِ یقیں ہے تابندہ ترے عشق سے ایماں کی جبیں ہے چمکا ہے تیری ذات سے اِنساں کا مقدر تُو خاتمِ کونین کا رخشندہ نگیں ہے چمکی تھی کبھی جو ترے نقشِ کفِ پا سے اب تک وہ زمیں چاند ستاروں کی زمیں ہے جس میں ہو تیرا ذِکر، وہی بزم ہے رنگیں جس میں ہو تیرا نام ، وہی بات حسیں ہے...
  12. سید شہزاد ناصر

    غالب ، مرزا اسداللہ خاں حالاتِ زندگی

    مرزا اسداللہ خاں دسمبر 27 ،کو آگرہ میں مرزا عبداللہ بیگ خاں کے ہاں پیدا ہوئے 1802میںء مرزا اسداللہ خاں غالب کے والدِ محترم مرزا عبداللہ بیگ خاں راج گڑھ کی جنگ میں گولی لگنے سے اللہ کو پیارے ہوگئے 1810ء ،اگست 9 کو نواب احمد بخش خاں کے چھوٹے بھائی الٰہی بخش خاں معروف کی 11 سالہ صاحبزادی امراؤ بیگم...
  13. فرخ منظور

    تبسم روش روش پہ ترا انتظار ہے ساقی ۔ صوفی تبسّم

    روش روش پہ ترا انتظار ہے ساقی بہار منتظرِ نوبہار ہے ساقی حوادثات سے ٹکرا نہ جائے سازِ حیات غمِ جہاں سے غمِ دل دو چار ہے ساقی سحر فسردہ ہے، شام اداس اداس عجیب گردشِ لیل و نہار ہے ساقی ٹھہر گئے ہیں کہاں قافلے محبت کے ہر ایک راہ گذر سوگوار ہے ساقی دبی دبی سی ہے کچھ اس طرح سے جانِ حزیں تری...
  14. فرخ منظور

    تبسم ہزار گردش ِ شام و سحر سے گذرے ہيں - صوفی تبسم

    ہزار گردش ِ شام و سحر سے گذرے ہيں وہ قافلے جو تری رہگذر سے گذرے ہيں ابھي ہوس کو ميسر نہيں دلوں کا گداز ابھي يہ لوگ مقام ِ نظر سے گذرے ہيں ہر ايک نقش پہ تھا تيرے نقش ِ پا کا گماں قدم قدم پہ تری رہ گذر سے گذرے ہيں نہ جانے کون سی منزل پہ جا کے رک جائيں نظر کے قافلے ديوار و در سے...
Top