تبسم کاروان حُسن کے کیا کیا نہ نظر سے گزرے ۔ صوفی تبسمن

فرخ منظور

لائبریرین
کارواں، حُسن کے کیا کیا نہ نظر سے گزرے
کاش وہ بھی کبھی اس راہ گزر سے گزرے

کوئی صورت نظر آئی نہیں آبادی کی
ہم تو ان اجڑے ہوئے شام و سحر سے گزرے

سفرِ عشق میں کھلتی ہیں ہزاروں راہیں
دل مسافر ہے خدا جانے کدھر سے گزرے

پھر بھی کیوں خشک ہیں دامن میرے غم خواروں کے
کتنے طوفان مرے دیدۂ تر سے گزرے

یوں تو طوفاں سے گزرتے ہیں سفینے اکثر
وہی کشتی ہے جو ساحل کے بھنور سے گزرے

دل کو یارا نہ ہوا آنکھ بھی جھپکانے کا
ایسے نظارے بھی کچھ اپنی نظر سے گزرے

اور بھی پھیل گئیں رنج و الم کی راہیں
رہ نوردانِ رہِ عشق جدھر سے گزرے

(صوفی تبسم)​
 
آخری تدوین:
Top