نظر لکھنوی - غزلیں

  1. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: زندگی پائی ہے ان سے لو لگانے کے لیے ٭ نظرؔ لکھنوی

    زندگی پائی ہے ان سے لو لگانے کے لیے دل ملا زیرِ قدم ان کے بچھانے کے لیے اک ہمیں کیا رہ گئے بس آزمانے کے لیے اور دنیا بھی تو ہے تیرے ستانے کے لیے یہ شبِ ہجراں تو آئی ہے نہ جانے کے لیے دوستو آنا مری مٹی اٹھانے کے لیے حرص کی عادت نہ چھوٹی سبحہ گردانی میں بھی دستِ زاہد دیکھ جنباں دانے...
  2. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: خبر کس کو محبت کیا ہے پر اتنی حقیقت ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    خبر کس کو محبت کیا ہے، پر اتنی حقیقت ہے کہ یہ راحت کی راحت ہے، مصیبت کی مصیبت ہے یہی ہے ہاں یہی قربِ قیامت کی علامت ہے مسلمانوں کے دل میں اب مسلمانوں کی نفرت ہے خدا حائل، حیا حائل، نہ حائل اب ندامت ہے گناہوں کے لیے اب تو سہولت ہی سہولت ہے خوشی ہے آنی جانی شے، پہ قدرِ مستقل ہے غم فسانہ پھر...
  3. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: تھی پہلے مستقل جو وہ اب مستقل گئی ٭ نظرؔ لکھنوی

    تھی پہلے مستقل جو وہ اب مستقل گئی حیف آرزو تری کہ جو تھی جان و دل گئی سوزِ الم میں دل بہ خیالِ گلیم پوش دوزخ میں جل رہا تھا کہ جنت بھی مل گئی دل کی کلی کھِلے تو مہک اٹھے جسم و جاں کس کام کی مرے وہ چمن میں جو کِھل گئی روحِ لطیف کی نہیں باقی لطافتیں فعّال آئی ہو کے مگر منفعل گئی ایماں...
  4. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: وہ حسن سراپا ہے، وہ مصدرِ رعنائی ٭ نظرؔ لکھنوی

    وہ حسن سراپا ہے، وہ مصدرِ رعنائی میں عشقِ مجسم ہوں، میں چشمِ تماشائی یہ قوتِ گویائی، یہ سوچ کی گہرائی انساں کو ملی کیسی، دانائی و بینائی جو چیز بھی پائی ہے، وہ در سے ترے پائی لاریب تو آقائی، لاریب تو مولائی ہیں مہر بہ لب کلیاں، ہیں پھول بھی افسردہ غل ہے کہ بہار آئی، کیا خاک بہار آئی اقرب ہے...
  5. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: تری ہی یاد سے آباد دل کے کاشانے ٭ نظرؔ لکھنوی

    تری ہی یاد سے آباد دل کے کاشانے تری طلب سے جو خالی وہ دل ہیں ویرانے سنبھل سنبھل کے میں امروز رکھ رہا ہوں قدم یہ درس مجھ کو دیا ہے شعورِ فردا نے جفائے یار بھی اک صدقۂ توجہ ہے مقامِ شکر ہے یکسر نہیں وہ بیگانے کہوں میں کیسے کہ بدلا ہے نظمِ میخانہ شرابِ کہنہ وہی ہے وہی ہیں پیمانے...
  6. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: ہے اِدھر اُدھر ہے یہاں وہاں دلِ منتشر تگ و تاز میں ٭ نظرؔ لکھنوی

    اقبالؒ کی زمین میں دادا کی ایک غزل۔ ہے اِدھر اُدھر، ہے یہاں وہاں، دلِ منتشر تگ و تاز میں سرِ بندگی تو جھکا دیا، مِرا دل نہیں ہے نماز میں گہے محوِ دیدِ بتاں نظر، گہے صیدِ عشقِ بتاں ہے دل ملے وہ حقیقتِ دل نشیں، کہاں اس طریقِ مجاز میں اک اشارہ پا کے ہزاروں خم ترے مے کشوں نے لنڈھا دیے...
  7. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل:احساسِ قرب و دوری منزل نہیں رہا ٭ نظرؔ لکھنوی

    احساسِ قرب و دوریِ منزل نہیں رہا ہم فرض کر چکے ہیں کہ ساحل نہیں رہا تسخیرِ کائنات کی سرگرمیاں عبث زیرِ نگیں ترے یہ اگر دل نہیں رہا ناکامیوں سے مجھ کو ملا عزمِ مستقل نعم الحصول ہے کہ جو حاصل نہیں رہا نالے فلک شگاف نہیں، آہ نا رسا دل اب کچھ اعتبار کے قابل نہیں رہا صحنِ چمن میں لالہ و گل...
  8. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی آخری غزل: شگفتہ، دلنشیں، سادہ رواں ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    دادا مرحوم کی آخری غزل جو انھوں نے 16 دسمبر 1993ء کو لکھی۔ 4 جنوری 1994ء کو ان کا انتقال ہوا۔ شگفتہ، دلنشیں، سادہ رواں ہے یہ اپنا اپنا اندازِ بیاں ہے لگی ہے آگ، شعلے ہیں، دھواں ہے چمن میں میرے خیریت کہاں ہے خدنگِ ناز اُدھر اور تیغِ ابرو اِدھر دونوں کی زد پر میری جاں ہے ذرا میں خوش، ذرا میں...
  9. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: بہار آئی ہے گلشن میں، اسیرِ باغباں ہم ہیں ٭ نظرؔ لکھنوی

    بہار آئی ہے گلشن میں، اسیرِ باغباں ہم ہیں زباں رکھتے ہوئے بھی وائے قسمت، بے زباں ہم ہیں ابھی سے کیا کہیں، ناکام ہیں یا کامراں ہم ہیں کہ یہ دورِ عبوری ہے، بقیدِ امتحاں ہم ہیں بھٹکتے پھر رہے ہیں ہم نشاں منزل کا گم کر کے حیا آتی ہے اب کہتے، حرم کے پاسباں ہم ہیں سنے دنیا تو حیرت ہو، اگر دیکھے...
  10. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: اُڑے ہیں ہوش مرے میں ہوں غرقِ بادۂ ناب ٭ نظرؔ لکھنوی

    اُڑے ہیں ہوش مرے میں ہوں غرقِ بادۂ ناب ٹھہر نہ چھیڑ ابھی قصۂ عذاب و ثواب اُدھر ہے حسن تہِ صد حجاب ہائے نقاب اِدھر ہے عشق کہ پھرتا یونہی ہے خانہ خراب تمام حزن مجسم، ملال و درد و عذاب بڑا ہی خیر ہوا زندگی ہے مثلِ حباب تھا اک نصاب ضروری برائے مکتبِ زیست تو الکتاب اتاری گئی بطورِ نصاب کرے اسیر...
  11. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: صیدِ مقام کیوں ہے تو قیدِ مقام سے گزر ٭ نظرؔ لکھنوی

    صیدِ مقام کیوں ہے تو، قیدِ مقام سے گزر شمعِ ھُدیٰ لئے ہوئے، ہر در و بام سے گزر مستیِ جام سے حذر، خواہشِ جام سے گزر مست ِمئے الست بن، مسلکِ عام سے گزر کوثر و سلسبیل سے، قصر و غلام سے گزر تیرا صلہ کچھ اور ہے، حورِ خیام سے گزر تیرے لبوں پہ ہو دعا، سبّ و شتم جو تجھ پہ ہو حسنِ کلام کے امیں، سوءِ...
  12. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: آلودۂ عصیاں خود کہ ہے دل، وہ مانعِ عصیاں کیا ہو گا ٭ نظر لکھنوی

    آلودۂ عصیاں خود کہ ہے دل، وہ مانعِ عصیاں کیا ہو گا جو اپنی حفاظت کر نہ سکا، وہ میرا نگہباں کیا ہو گا ذوقِ دلِ شاہاں پیدا کر، تاجِ سرِ شاہاں کیا ہو گا جو لُٹ نہ سکے وہ ساماں کر، لُٹ جائے جو ساماں کیا ہو گا غم خانہ، صنم خانہ، ایواں یا خانۂ ویراں کیا ہو گا قصہ ہے دلِ دیوانہ کا، حیراں ہوں کہ عنواں...
  13. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: بتا نہ دوں میں تجھے اصلِ آگہی کیا ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    بتا نہ دوں میں تجھے اصلِ آگہی کیا ہے بس آدمی یہ سمجھ لے کہ آدمی کیا ہے شبِ فراق کے ماروں کی حالتِ ابتر شنیدنی نہ ہوئی جب تو دیدنی کیا ہے تلاشِ حسن میں لگ جا تو سب عیاں ہو جائے نہ پوچھ سلسلۂ عشق و عاشقی کیا ہے تمام خانۂ دل ظلمتوں میں ہے ڈوبا مگر یہ بیچ میں مدھم سی روشنی کیا ہے برائے خاطرِ...
  14. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: یہ برہمی یہ تری بے رخی قبول نہیں ٭ نظرؔ لکھنوی

    یہ برہمی یہ تری بے رخی قبول نہیں کسی بھی رخ، یہ رخِ زندگی قبول نہیں وہ سن لیں جن کو غمِ زندگی قبول نہیں کہ زندگی کو بھی ان کی خوشی قبول نہیں جو میرے ہوش اڑا دے، حواس گم کر دے خدا پناہ کہ وہ آگہی قبول نہیں نکالتا ہوں محبت کی کچھ نئی راہیں شکستِ دل سے مجھے آشتی قبول نہیں خودی کو میری جگا دے،...
  15. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: جنونِ تعمیرِ آشیاں میں نگاہ ڈالی تھی طائرانہ ٭ نظرؔ لکھنوی

    جنونِ تعمیرِ آشیاں میں نگاہ ڈالی تھی طائرانہ جو ہوش آیا تو ہم نے دیکھا، بہ شاخِ نازک ہے آشیانہ کوئی قرینہ نہیں ہے باقی، بھلا ہو اے گردشِ زمانہ کہاں وہ رندی، کہاں وہ ساقی، کہاں وہ اب مستیِ شبانہ بتا دے ان رہرؤوں کو کوئی، قدم اٹھائیں نہ عاجلانہ سنا ہے صحنِ چمن میں ہر سو قدم قدم پر ہے دام و دانہ...
  16. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: حصارِ دیں سے جواں نسل اف نکلنے لگی ٭ نظرؔ لکھنوی

    حصارِ دیں سے جواں نسل اُف نکلنے لگی ہوائے فسق و فجور آہ کیسی چلنے لگی خوشا کہ حالتِ قلبِ حزیں بدلنے لگی ہجومِ غم میں طبیعت مری بہلنے لگی حریمِ ناز میں جب میری دال گلنے لگی حسد کی آگ رقیبوں کے دل میں جلنے لگی وہ ایک ذرہ جو قوت میں ڈھل گیا آخر کرشمہ کار ہوا جب، زمیں دہلنے لگی ستم پہ آہ کی بندش...
  17. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: تمہارے نقشِ قدم پر جو کارواں گزرے ٭ نظر لکھنوی

    تمہارے نقشِ قدم پر جو کارواں گزرے بھٹک سکے نہ وہ منزل سے کامراں گزرے کہیں سے اور بھی اب برقِ آسماں گزرے ضرور کیا ہے سرِ شاخ آشیاں گزرے بخیر راہِ محبت سے ہم کہاں گزرے قدم قدم پہ بڑے سخت امتحاں گزرے وہ غم نصیب تھا دنیا میں مَیں کے مرنے پر مری لحد سے جو گزرے وہ نوحہ خواں گزرے صعوبتوں کی وہ عادت...
  18. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: اپنے ایمان و یقیں میں وہ کھرا ہوتا ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    اپنے ایمان و یقیں میں وہ کھرا ہوتا ہے جو کہ ہر حال میں راضی بہ قضا ہوتا ہے جال میں نفس کے ہر شخص پھنسا ہوتا ہے یہ وہ دشمن، جو سدا دوست نما ہوتا ہے قیدیِ سلسلۂ عمرِ بقا ہوتا ہے مر کے انساں یہ غلط ہے کہ فنا ہوتا ہے منفرد نقش ہے نقاشِ ازل کا ہر فرد پُر نہیں ہوتا ہے پیدا جو خلا ہوتا ہے لاکھ...
  19. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: ہر چند زباں سے کچھ نہ کہیں، دنیا کو خبر ہو جاتی ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    ہر چند زباں سے کچھ نہ کہیں، دنیا کو خبر ہو جاتی ہے رازِ غمِ دل کے افشا کو یہ آنکھ جو تر ہو جاتی ہے ہے فطرتِ آدم خیر طلب، ہے خلقتِ انساں حُسن طلب حیراں ہوں میں کیسے طبعِ بشر آمادۂ شر ہو جاتی ہے اے غرقِ ستم! اے مستِ جفا! تو نے بھی سنا ہے یہ کہ نہیں نکلی جو شکستہ دل سے دعا پابندِ اثر ہو جاتی ہے...
  20. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: مسخ ہو کر رہ گیا ہر ایک بابِ زندگی ٭ نظرؔ لکھنوی

    مسخ ہو کر رہ گیا ہر ایک بابِ زندگی دید کے قابل نہیں اب تو کتابِ زندگی راہِ حق میں جھیل کر دو دن عذابِ زندگی ہو گئے اہلِ محبت کامیابِ زندگی عاشقِ ناکام ہوں یا عاشقانِ با مراد غور اگر کیجے تو دونوں ہی خرابِ زندگی اہلِ دنیا میں رہا میں، گوشۂ صحرا میں تُو میں کہ تُو؟ زاہد بتا، ہے فیض یابِ زندگی...
Top