نظر لکھنوی غزل: تری ہی یاد سے آباد دل کے کاشانے ٭ نظرؔ لکھنوی

تری ہی یاد سے آباد دل کے کاشانے
تری طلب سے جو خالی وہ دل ہیں ویرانے

سنبھل سنبھل کے میں امروز رکھ رہا ہوں قدم
یہ درس مجھ کو دیا ہے شعورِ فردا نے

جفائے یار بھی اک صدقۂ توجہ ہے
مقامِ شکر ہے یکسر نہیں وہ بیگانے

کہوں میں کیسے کہ بدلا ہے نظمِ میخانہ
شرابِ کہنہ وہی ہے وہی ہیں پیمانے

تری نگاہ نے چونکا دیا ہمیں ورنہ
تغیراتِ زمانہ سے ہم تھے بیگانے

نظرؔ یہ کج رویِ عہدِ نو معاذ اللہ
مآل دیکھیے ہوتا ہے کیا خدا جانے

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 
Top