نظر لکھنوی غزل: اُڑے ہیں ہوش مرے میں ہوں غرقِ بادۂ ناب ٭ نظرؔ لکھنوی

اُڑے ہیں ہوش مرے میں ہوں غرقِ بادۂ ناب
ٹھہر نہ چھیڑ ابھی قصۂ عذاب و ثواب

اُدھر ہے حسن تہِ صد حجاب ہائے نقاب
اِدھر ہے عشق کہ پھرتا یونہی ہے خانہ خراب

تمام حزن مجسم، ملال و درد و عذاب
بڑا ہی خیر ہوا زندگی ہے مثلِ حباب

تھا اک نصاب ضروری برائے مکتبِ زیست
تو الکتاب اتاری گئی بطورِ نصاب

کرے اسیر مجھے یہ کہاں ہے اس کی مجال
کہ اس کا حسن ہے خود ہی اسیر عمرِ شباب

مری حیات سراپا نظرؔ ہے مثلِ نماز
اگر امام کی پوچھو تو ہے خدا کی کتاب

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ! بہت خوب! مطلع اور مقطع دونوں الگ الگ رنگوں کے اور خوب! یہی تو صنفِ غزل کی انفرادیت ہے!

تابش بھائی اس مصرع کو اصل مسودے سے ملا لیجئے۔ مجے یقین ہے کہ لفظ ’’خیر‘‘ دہلی اور لکھنؤ دونوں جگہ مؤنث ہی مانا جاتا ہے ۔
بڑا ہی خیر ہوا زندگی ہے مثلِ حباب
 
واہ! بہت خوب! مطلع اور مقطع دونوں الگ الگ رنگوں کے اور خوب! یہی تو صنفِ غزل کی انفرادیت ہے!

تابش بھائی اس مصرع کو اصل مسودے سے ملا لیجئے۔ مجے یقین ہے کہ لفظ ’’خیر‘‘ دہلی اور لکھنؤ دونوں جگہ مؤنث ہی مانا جاتا ہے ۔
بڑا ہی خیر ہوا زندگی ہے مثلِ حباب
بہت شکریہ ظہیر بھائی۔

ان شاء اللہ ضرور دیکھوں گا، بات آپ کی درست ہے۔ توجہ پر شکر گزار ہوں۔ :)
 
Top