نظر لکھنوی غزل: خبر کس کو محبت کیا ہے پر اتنی حقیقت ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

خبر کس کو محبت کیا ہے، پر اتنی حقیقت ہے
کہ یہ راحت کی راحت ہے، مصیبت کی مصیبت ہے

یہی ہے ہاں یہی قربِ قیامت کی علامت ہے
مسلمانوں کے دل میں اب مسلمانوں کی نفرت ہے

خدا حائل، حیا حائل، نہ حائل اب ندامت ہے
گناہوں کے لیے اب تو سہولت ہی سہولت ہے

خوشی ہے آنی جانی شے، پہ قدرِ مستقل ہے غم
فسانہ پھر فسانہ ہے، حقیقت پھر حقیقت ہے

نکل کر آہ دل سے آئی جو شعلہ صفت آئی
سلگتی آگ پر شاید کہ بنیادِ عمارت ہے

مری خاموشیوں کا کیا سبب معلوم کرتے ہو
کہوں اس کے سوا میں کیا کہ چپ رہنے کی عادت ہے

تہِ دل جھانک کر کیا دیکھتے ہو اب نظرؔ اس میں
حسد ہے، بغض ہے، کینہ، کدورت اور عداوت ہے

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 
Top