محمد تابش صدیقی
منتظم
دادا مرحوم کی آخری غزل جو انھوں نے 16 دسمبر 1993ء کو لکھی۔ 4 جنوری 1994ء کو ان کا انتقال ہوا۔
شگفتہ، دلنشیں، سادہ رواں ہے
یہ اپنا اپنا اندازِ بیاں ہے
لگی ہے آگ، شعلے ہیں، دھواں ہے
چمن میں میرے خیریت کہاں ہے
خدنگِ ناز اُدھر اور تیغِ ابرو
اِدھر دونوں کی زد پر میری جاں ہے
ذرا میں خوش، ذرا میں ہے کبیدہ
بہت نازک مزاجِ گل رخاں ہے
لگا دے آگ جب چاہے دلوں میں
خطیبِ شہر وہ آتش زباں ہے
ہے رودادِ ستم اس کی یہ اصلاً
بظاہر میرے غم کی داستاں ہے
اچک لیتی جہنم مجھ کو لیکن
خدا کی شانِ رحمت درمیاں ہے
ہماری داستاں ماضی کی سن کر
ہر اک انگشت حیرت در دہاں ہے
ضعیف العمر میں ہُوں، دل کہاں ہے
کہ ہر اک عزمِ دل، عزمِ جواں ہے
بتا دیتا ہے چہرہ آدمی کا
نظرؔ غمگیں ہے دل یا شادماں ہے
٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
یہ اپنا اپنا اندازِ بیاں ہے
لگی ہے آگ، شعلے ہیں، دھواں ہے
چمن میں میرے خیریت کہاں ہے
خدنگِ ناز اُدھر اور تیغِ ابرو
اِدھر دونوں کی زد پر میری جاں ہے
ذرا میں خوش، ذرا میں ہے کبیدہ
بہت نازک مزاجِ گل رخاں ہے
لگا دے آگ جب چاہے دلوں میں
خطیبِ شہر وہ آتش زباں ہے
ہے رودادِ ستم اس کی یہ اصلاً
بظاہر میرے غم کی داستاں ہے
اچک لیتی جہنم مجھ کو لیکن
خدا کی شانِ رحمت درمیاں ہے
ہماری داستاں ماضی کی سن کر
ہر اک انگشت حیرت در دہاں ہے
ضعیف العمر میں ہُوں، دل کہاں ہے
کہ ہر اک عزمِ دل، عزمِ جواں ہے
بتا دیتا ہے چہرہ آدمی کا
نظرؔ غمگیں ہے دل یا شادماں ہے
٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی