نظر لکھنوی غزل: بتا نہ دوں میں تجھے اصلِ آگہی کیا ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

بتا نہ دوں میں تجھے اصلِ آگہی کیا ہے
بس آدمی یہ سمجھ لے کہ آدمی کیا ہے

شبِ فراق کے ماروں کی حالتِ ابتر
شنیدنی نہ ہوئی جب تو دیدنی کیا ہے

تلاشِ حسن میں لگ جا تو سب عیاں ہو جائے
نہ پوچھ سلسلۂ عشق و عاشقی کیا ہے

تمام خانۂ دل ظلمتوں میں ہے ڈوبا
مگر یہ بیچ میں مدھم سی روشنی کیا ہے

برائے خاطرِ احباب ہنس دیا میں بھی
ہنسی کا ایک تکلف کیا، ہنسی کیا ہے

یہ لوگ مرتے ہیں کیوں زندگی پہ جبکہ نظرؔ
خبر ہنوز نہیں حسنِ زندگی کیا ہے

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 
تلاشِ حسن میں لگ جا تو سب عیاں ہو جائے
نہ پوچھ سلسلۂ عشق و عاشقی کیا ہے
مزہ آ گیا
برائے خاطرِ احباب ہنس دیا میں بھی
ہنسی کا ایک تکلف کیا، ہنسی کیا ہے
واہ واہ واہ
 
Top