نظر لکھنوی غزل: تھی پہلے مستقل جو وہ اب مستقل گئی ٭ نظرؔ لکھنوی

تھی پہلے مستقل جو وہ اب مستقل گئی
حیف آرزو تری کہ جو تھی جان و دل گئی

سوزِ الم میں دل بہ خیالِ گلیم پوش
دوزخ میں جل رہا تھا کہ جنت بھی مل گئی

دل کی کلی کھِلے تو مہک اٹھے جسم و جاں
کس کام کی مرے وہ چمن میں جو کِھل گئی

روحِ لطیف کی نہیں باقی لطافتیں
فعّال آئی ہو کے مگر منفعل گئی

ایماں کی دل میں اب وہ خنک تابیاں کہاں
اب وہ فضائے خوش اثر و معتدل گئی

چارہ گری یہ دیکھیے ذکرِ حبیبؐ کی
ہر زخمِ دل کو کر کے مرے مندمل گئی

یزداں کی بارگاہ سے کیا مانگیے نظرؔ
جب آپ مل گئے مجھے ہر چیز مل گئی

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 
Top