ایک نغمہ کربلائے بیروت کے لیے
بیروت نگارِ بزمِ جہاں
بیروت بدیلِ باغِ جناں
بچوں کی ہنستی آنکھوں کے
جو آئنے چکنا چور ہوئے
اب ان کے ستاروں کی لَو سے
اس شہر کی راتیں روشن ہیں
اور رُخشاں ہے ارضِ لبنان
بیروت نگارِ بزمِ جہاں
جو چہرے لہو کے غازے کی
زینت سے سوا پُرنور ہوئی
اب ان کے رنگیں پرتو سے
اس شہر...
جب یار دیکھا نین پھر دل کی گئی چنتا اتر
ایسا نہیں کوئی عجب، راکھے اسے سمجھائے کر
جب آنکھ سے اوجھل بھیا، تڑپن لگا میرا جِیا
حقّا الہٰی کیا کیا، آنسو چلے بھر لائے کر
توں تو ہمارا یار ہے ، تجھ پر ہمارا پیار ہے
تجھ دوستی بسیار ہے ، اِک شب ملو تم آئے کر
جاناں طلب تیری کروں ، دیگر طلب کس کی کروں...
مہی گذشت کہ چشمم مجالِ خواب ندارد
مرا شبی است سیہ رو کہ ماہتاب ندارد
گیا وہ چاند نظر کو مجالِ خواب نہیں
شبِ سیہ کے مقدر میں ماہتاب نہیں
نہ عقل ماند نہ دانش نہ صبر ماند نہ طاقت
کسی چنین دل بیچارہء خراب ندارد
رہے نہ ہوش و خرد اور نہ ہی صبر و شکیب
کسی کا دل بھی یوں بیچارہ و خراب نہیں
تو ای...
منظوم ترجمہ از حکیم شمس الالسلام ابدالی، فارسی غزل امیر خسرو
گفتم کہ روشن از قمر گفتا کہ رخسار منست
گفتم کہ شیرین از شکر گفتا کہ گفتار منست
ترجمہ
پوچھا کہ روشن چاند سے؟ بولا مرا رخسار ہے
پوچھا کہ میٹھی قند سے؟ بولا مری گفتار ہے
گفتم طریق عاشقان گفتا وفاداری بود
گفتم مکن جور و جفا، گفتا...
نالۂ صبا تنہا ، پھول کی ہنسی تنہا
اس چمن کی دنیا میں ، ہے کلی کلی تنہا
رات دن کے ہنگامے ، ایک مہیب تنہائی
صبحِ زیست بھی تنہا ، شامِ زیست بھی تنہا
کون کس کا غم کھائے ، کون کس کو بہلائے
تیری بے کسی تنہا ، میری بے بسی تنہا
دیکھیے تو ہوتے ہیں سارے ہم قدم رہرو
کاٹیے تو کٹتی ہے راہِ زندگی تنہا...
دیدنی
میری پلکوں کو مت دیکھو
اِن کا اٹھنا، اِن کا جھپکنا، جسم کا نامحسوس عمل ہے
میری آنکھوں کو مت دیکھو اِن کی اوٹ میں شامِ غریباں، اِن کی آڑ میں دشتِ ازل ہے
میرے چہرے کو مت دیکھو
اِس میں کوئی وعدہء فردا، اس میں کوئی آج نہ کل ہے
اب اُس دریا تک مت آؤ جس کی لہریں ٹوٹ چکی ہیں
اُس سینے سے لو نہ...
میجر اسحاق کی یاد میں
لو تم بھی گئے ہم نے تو سمجھا تھا کہ تم نے
باندھا تھا کوئی یاروں سے پیمانِ وفا اور
یہ عہد کہ تا عمرِ رواں ساتھ رہو گے
رستے میں بچھڑ جائیں گے جب اہلِ صفا اور
ہم سمجھے تھے صیّاد کا ترکش ہوا خالی
باقی تھا مگر اس میں ابھی تیرِ قضا اور
ہر خار رہِ دشت وطن کا ہے سوالی
کب...
جنّت سے منٹو کا خط
(1)
میں خیریت سے ہوں لیکن کہو کیسے ہو تم "راجہ"
بہت دن کیوں رہے تُم "فلم کی دنیا" میں گم "راجہ"
یہ دنیائے ادب سے کیوں کیا تم نے کنارا تھا
ارے اے بے ادب کیا "شعر" سے "زر" تم کو پیارا تھا
جو نظمیں تم نے لکھی تھیں کبھی جنت کے بارے میں
چھپی تھیں وہ یہاں بھی "خلد" کے پہلے شمارے...
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی
نہ تن میں خون فراہم نہ اشک آنکھوں میں
نمازِ شوق تو واجب ہے بے وضو ہی سہی
کسی طرح تو جمے بزم میکدے والو
نہیں جو بادہ و ساغر تو ہاؤ ہو ہی سہی
گر انتظار کٹھن ہے تو جب تلک اے دل
کسی کے وعدہء فردا کی گفتگو ہی سہی
دیارِ غیر میں محرم...
عشق اپنے مجرموں کو پابجولاں لے چلا
دار کی رسیوں کے گلوبند گردن میں پہنے ہوئے
گانے والے ہر اِک روز گاتے رہے
پایلیں بیڑیوں کی بجاتے ہوئے
ناچنے والے دھومیں مچاتے رہے
ہم نہ اس صف میں تھے اور نہ اُس صف میں تھے
راستے میں کھڑے اُن کو تکتے رہے
رشک کرتے رہے
اور چُپ چاپ آنسو بہاتے رہے
لوٹ کر آ کے دیکھا...
پھر محّرک ستم شعاری ہے
پھر انہیں جستجو ہماری ہے
پھر وہی داغ و دل سے صحبت گرم
پھر وہی چشم و شعلہ باری ہے
پھر وہی جوش و نالہ و فریاد
پھر وہی شورِ آہ و زاری ہے
پھر خیالِ نگاہِ کافر ہے
پھر تمنائے زخم کاری ہے
پھر وہاں طرزِ دلنوازی ہے
پھر یہاں رسمِ جاں نثاری ہے
پھر وہی بے قراریِ تسکیں
پھر...
اٹھ اُتاں نوں جٹّا
مردا کیوں جائیں
بھولیا! تُوں جگ دا ان داتا
تیری باندی دھرتی ماتا
توں جگ دا پالن ہار
تے مردا کیوں جائیں
اٹھ اُتاں نوں جٹّا
مردا کیوں جائیں
جرنل، کرنل، صوبیدار
ڈپٹی، ڈی سی، تھانیدار
سارے تیرا دتّا کھاون
توں جے نہ بیجیں، توں جے نہ گاہویں
بھُکھّے، بھانے سب مر جاون
ایہہ چاکر توں...
گیت
جلنے لگیں یادوں کی چتائیں
آؤ کوئی بَیت بنائیں
جن کی رہ تکتے تکے جُگ بیتے
چاہے وہ آئیں یا نہیں آئیں
آنکھیں موند کے نِت پل دیکھیں
آنکھوں میں اُن کی پرچھائیں
اپنے دردوں کا مُکٹ پہن کر
بے دردوں کے سامنے جائیں
جب رونا آوے مسکائیں
جب دل ٹوٹے دیپ جلائیں
پریم کتھا کا انت نہ کوئی
کتنی بار اسے دھرائیں...
تیری یاد ستاؤندی نیندر نہیں آؤندی
(یہ وہی گیت ہے جس کا چربہ لیکن اچھا چربہ سجاد علی نے بھی کیا ہے)
گلوکارہ: نورجہاں
فلم: شہنشاہ (پاکستانی)
موسیقار: ماسٹر عبداللہ
راگ: مدھو کونس