فرخ منظور

  1. فرخ منظور

    فانی جانتا ہوں کہ مرا دل مرے پہلو میں نہیں ۔ فانی بدایونی

    جانتا ہوں کہ مرا دل مرے پہلو میں نہیں پھر کہاں ہے جو ترے حلقۂ گیسو میں نہیں ایک تم ہو تمہارے ہیں پرائے دل بھی ایک میں ہوں کہ مرا دل مرے قابو میں نہیں دور صیّاد، چمن پاس، قفس سے باہر ہائے وہ طاقتِ پرواز کہ بازو میں نہیں دیکھتے ہیں تمہیں جاتے ہوئے اور جیتے ہیں تم بھی قابو میں نہیں، موت بھی...
  2. فرخ منظور

    جگر شورشِ کائنات نے مارا ۔ جگر مراد آبادی

    شورشِ کائنات نے مارا موت بن کر حیات نے مارا پرتوِ حسنِ ذات نے مارا مجھ کو میری صفات نے مارا ستمِ یار کی دہائی ہے نگہِ التفات نے مارا میں تھا رازِ حیات اور مجھے میرے رازِ حیات نے مارا ستمِ زیست آفریں کی قسم خطرۂ التفات نے مارا موت کیا؟ ایک لفظِ بے معنی جس کو مارا حیات نے مارا جو پڑی...
  3. فرخ منظور

    جگر خاص اِک شان ہے یہ آپ کے دیوانوں کی ۔ جگر مراد آبادی

    خاص اِک شان ہے یہ آپ کے دیوانوں کی دھجیاں خود بخود اڑتی ہیں گریبانوں کی سخت دشوار حفاظت تھی گریبانوں کی آبرو موت نے رکھ لی ترے دیوانوں کی رحم کر اب تو جنوں! جان پہ دیوانوں کی دھجیاں پاؤں تک آپہنچیں گریبانوں کی گرد بھی مل نہیں سکتی ترے دیوانوں کی خاک چھانا کرے اب قیس بیابانوں کی ہم نے...
  4. فرخ منظور

    فیض جو میرا تمہارا رشتہ ہے ۔ فیض احمد فیض

    جو میرا تمہارا رشتہ ہے میں کیا لکھوں کہ جو میرا تمہارا رشتہ ہے وہ عاشقی کی زباں میں کہیں بھی درج نہیں لکھا گیا ہے بہت لطفِ وصل و دردِ فراق مگر یہ کیفیت اپنی رقم نہیں ہے کہیں یہ اپنا عشق ہم آغوش جس میں ہجر و وصال یہ اپنا درد کہ ہے کب سے ہمدمِ مہ و سال اس عشقِ خاص کو ہر ایک سے چھپائے ہوئے "گزر...
  5. فرخ منظور

    فیض جیسے ہم بزم ہیں پھر یارِ طرح دار سے ہم ۔ فیض احمد فیض

    جیسے ہم بزم ہیں پھر یارِ طرح دار سے ہم رات ملتے رہے اپنے در و دیوار سے ہم سر خوشی میں یونہی دل شاد و غزل خواں گزرے کوئے قاتل سے کبھی کوچۂ دلدار سے ہم کبھی منزل، کبھی رستے نے ہمیں ساتھ دیا ہر قدم الجھے رہے قافلہ سالار سے ہم ہم سے بے بہرہ ہوئی اب جرسِ گُل کی صدا ورنہ واقف تھے ہر اِک رنگ کی...
  6. سید شہزاد ناصر

    شیفتہ اور اُلفت بڑھ گئی اس ستمِ ایجاد سے

    اور اُلفت بڑھ گئی اس ستمِ ایجاد سے ک نئی لذت جو پائی دل نے ہر بیداد سے غیر کو اندوہِ فرقت اب مبارک ہو کہ یاں دھیان جاتا ہی نہیں اُس کا دلِ ناشاد سے عشق میں یہ مرحلہ بھی پیش آتا ہے ضرور کس کو امیدِ اثر ہے نالہ و فریاد سے مجھ سے کیا کیا شاد ہو گی روحِ قیس و کوہکن پھر نظر آتے ہیں کوہ و دشت کچھ آباد...
  7. سید شہزاد ناصر

    داغ تیرے وعدے کو بت حیلہ جو نہ قرار ہے نہ قیام ہے

    ﺗﯿﺮﮮ ﻭﻋﺪﮮ ﮐﻮ ﺑﺖِ ﺣﯿﻠﮧ ﺟﻮ ﻧﮧ ﻗﺮﺍﺭ ﮨﮯ ﻧﮧ ﻗﯿﺎﻡ ﮨﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺷﺎﻡ ﮨﮯ، ﮐﺒﮭﯽ ﺻﺒﺢ ﮨﮯ، ﮐﺒﮭﯽ ﺷﺎﻡ ﮨﮯ ﻣﺮﺍ ﺫﮐﺮ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺟﻮ ﺁ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺟﮩﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﮎ ﮨﮯ ﺑﺎﻭﻓﺎ ﺗﻮ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﻣﺮﺍ ﺩﻭﺭ ﮨﯽ ﺳﮯ ﺳﻼﻡ ﮨﮯ ﺭﮨﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻡ ﺟﻮ ﻟﮍﺍﺋﯿﺎﮞ ﯾﻮﻧﮩﯽ ﺍﻥ ﻧﮕﺎﮨﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺗﻮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺩﻝ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﻣﮩﺮﺑﺎﻥ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﻞ ﻣﯿﮟ ﻗﺼﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﮨﮯ ﮐﺒﮭﯽ...
  8. عدنان حسین چیمہ

    واصف واصف علی واصف وچ جنگلاں دے سد پئی ماراں

    وچ جنگلاں دے سد پئی ماراں جے آویں میں جندڑی واراں میں اک کلی پئی کرلاندی کونجاں چلیاں بنھ قطاراں تیرے میرے جھگڑے کادھے تیریاں جتاں میریاں ہاراں میں چنگے کماں وچ رجھی آپے ڈھاواں، آپ اساراں اپنی مت نوں مار کے واصف ہن میں سب دیاں متاں ماراں واصف علی واصف
  9. فرخ منظور

    آتش کام کرتی رہی وہ چشمِ فسوں ساز اپنا ۔ خواجہ حیدر علی آتش

    کام کرتی رہی وہ چشمِ فسوں ساز اپنا لبِ جاں بخش دکھایا کیے اعجاز اپنا سرو گڑ جائیں گے گُل خاک میں مل جاویں گے پاؤں رکھے تو چمن میں وہ سرافراز اپنا خندہ زن ہیں، کبھی گریاں ہیں، کبھی نالاں ہیں نازِ خوباں سے ہوا ہے عجب انداز اپنا یہی اللہ سے خواہش ہے ہماری اے بُت کورِ بد بیں ہو ترا، گُنگ ہو...
  10. فرخ منظور

    فیض نذرِ مولانا حسرت موہانی ۔ فیض احمد فیض

    نذرِ مولانا حسرت موہانی مر جائیں گے ظالم کی حمایت نہ کریں گے احرار کبھی ترکِ روایت نہ کریں گے کیا کچھ نہ ملا ہے جو کبھی تجھ سے ملے گا اب تیرے نہ ملنے کی شکایت نہ کریں گے شب بیت گئی ہے تو گزر جائے گا دن بھی ہر لحظہ جو گزری وہ حکایت نہ کریں گے یہ فقر دلِ زار کا عوضانہ بہت ہے شاہی نہیں...
  11. فرخ منظور

    زمستان کا نوحہ (شہدائے کوئٹہ کے لئے) از اختر عثمان

    زمستان کا نوحہ (شہدائے کوئٹہ کے لئے) از اختر عثمان ابھی پچھلے جنازوں کے نمازی گھر نہیں لوٹے ابھی تازہ کُھدی قبروں کی مٹّی بھی نہیں سُوکھی اگربتّی کی خوشبو سانس کو مصلوب کرتی ہے پسِ چشم ِ عزا ٹھہرے سرشکِ حشر بستہ میں ابھی احساس کا نم ہے ابھی پرسے کو آئے نوحہ گر واپس نہیں پہنچے ابھی کنز ِ غم ِ...
  12. فرخ منظور

    تمہارا پیار مرے چارسو ابھی تک ہے ۔ فرحت عباس شاہ

    فرحت عباس شاہ کی ایک واحد غزل جو مجھے بہت پسند ہے۔ تمہارا پیار مرے چارسو ابھی تک ہے کوئی حصارمرے چارسو ابھی تک ہے بچھڑتے وقت جو تم سونپ کر گئے تھے مجھے وہ انتظار مرے چار سو ابھی تک ہے توخود ہی جانے کہیں دور کھو گیا ہےمگر تری پکار مرے چارسو ابھی تک ہے میں جب بھی نکلا میرے پاؤں چھید ڈالے گا...
  13. فرخ منظور

    فیض یہ کس دیارِ عدم میں ۔ ۔ ۔ فیض احمد فیض

    یہ کس دیارِ عدم میں ۔ ۔ ۔ نہیں ہے یوں تو نہیں ہے کہ اب نہیں پیدا کسی کے حسن میں شمشیرِ آفتاب کا حسن نگاہ جس سے ملاؤ تو آنکھ دکھنے لگے کسی ادا میں ادائے خرامِ بادِ صبا جسے خیال میں لاؤ تو دل سلگنے لگے نہیں ہے یوں تو نہیں ہے کہ اب نہیں باقی جہاں میں بزمِ گہِ حسن و عشق کا میلا بنائے لطف و محبت،...
  14. فرخ منظور

    تبسم تیری نظروں کا فسوں، دشمنِ دیں ہے ساقی ۔ صوفی تبّم

    تیری نظروں کا فسوں، دشمنِ دیں ہے ساقی ورنہ پینے میں کوئی بات نہیں ہے ساقی جو ترے جام سے سرشار نہیں ہے ساقی وہ بشر کون سی بستی کا مکیں ہے ساقی اس مئے ناب سے کیا فائدہ، جب ساغر میں جلوہ افروز تری چینِ جبیں ہے ساقی ابھی باقی ہے الَم ہائے فراواں کا خمار ابھی ہلکی سی کسک دل کے قریں ہے ساقی...
  15. فرخ منظور

    فیض ہجر کی راکھ اور وصال کے پھول ۔ فیض

    ہجر کی راکھ اور وصال کے پھول آج پھر درد و غم کے دھاگے میں ہم پرو کر ترے خیال کے پھول ترکِ الفت کے دشت سے چن کر آشنائی کے ماہ و سال کے پھول تیری دہلیز پر سجا آئے پھر تری یاد پر چڑھا آئے باندھ کر آرزو کے پلے میں ہجر کی راکھ اور وصال کے پھول
  16. فرخ منظور

    تبسم حسن مجبورِ جفا ہے شاید ۔ صوفی تبسّم

    حسن مجبورِ جفا ہے شاید یہ بھی اِک طرزِ ادا ہے شاید ایک غم ناک سی آتی ہے صدا کوئی دل ٹوٹ رہا ہے شاید خود فراموش ہوا جاتا ہوں تو مجھے بھول گیا ہے شاید ان حسیں چاند ستاروں میں کہیں تیرا نقشِ کفِ پا ہے شاید ایک دنیا سے ہوئے بیگانے تجھ سے ملنے کا صلا ہے شاید ہر گھڑی اشک فشاں ہیں آنکھیں یہی...
  17. فرخ منظور

    فیض دربار میں اب سطوتِ شاہی کی علامت ۔ فیض احمد فیض

    دربار میں اب سطوتِ شاہی کی علامت درباں کا عصا ہے کہ مصنّف کا قلم ہے آوارہ ہے پھر کوہِ ندا پر جو بشارت تمہیدِ مسرت ہے کہ طولِ شبِ غم ہے جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علَم ہے جس نور سے ہے شہر کی دیوار درخشاں یہ خونِ شہیداں ہےکہ زرخانۂ جم ہے حلقہ کیے...
  18. فرخ منظور

    فیض اس وقت تو یُوں لگتا ہے ۔ فیض احمد فیض

    اس وقت تو یُوں لگتا ہے اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے مہتاب نہ سورج، نہ اندھیرا نہ سویرا آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا ممکن ہے کوئی وہم تھا، ممکن ہے سنا ہو گلیوں میں کسی چاپ کا اک آخری پھیرا شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید اب آ کے...
  19. فرخ منظور

    فیض گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا ۔ فیض احمد فیض

    گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا یہ شہر اداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا گلیوں میں پھرا کرتے تھے دو چار دوانے ہر شخص کا صد چاک لبادہ تو نہیں تھا منزل کو نہ پہچانے رہِ عشق کا راہی ناداں ہی سہی، ایسا بھی سادہ تو نہیں تھا تھک کر یونہی پل بھر کےلئے آنکھ لگی تھی سو کر ہی نہ اٹھیں یہ ارادہ تو...
  20. فرخ منظور

    فیض ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیے ۔ فیض احمد فیض

    ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیے ہم جیتیں گے حقّا ہم اِک دن جیتیں گے بالآخر اِک دن جیتیں گے کیا خوف ز یلغارِ اعداء ہے سینہ سپر ہر غازی کا کیا خوف ز یورشِ جیشِ قضا صف بستہ ہیں ارواح الشہدا ڈر کاہے کا! ہم جیتیں گے حقّا ہم اِک دن جیتیں گے قد جاء الحق و زَہَق الباطِل فرمودۂ ربِّ اکبر ہے جنت اپنے...
Top