فیض گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا ۔ فیض احمد فیض

فرخ منظور

لائبریرین
گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا
یہ شہر اداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا
گلیوں میں پھرا کرتے تھے دو چار دوانے
ہر شخص کا صد چاک لبادہ تو نہیں تھا
منزل کو نہ پہچانے رہِ عشق کا راہی
ناداں ہی سہی، ایسا بھی سادہ تو نہیں تھا
تھک کر یونہی پل بھر کےلئے آنکھ لگی تھی
سو کر ہی نہ اٹھیں یہ ارادہ تو نہیں تھا
واعظ سے رہ و رسم رہی رند سے صحبت
فرق ان میں کوئی اتنا زیادہ تو نہیں تھا
لاہور۔ فروری 83ء
 

فرحت کیانی

لائبریرین
گلیوں میں پھرا کرتے تھے دو چار دوانے
ہر شخص کا صد چاک لبادہ تو نہیں تھا
واہ۔ بہت خوب۔ بہترین انتخاب۔ بہت شکریہ سخنور! :)
 

شیزان

لائبریرین
تھک کر یونہی پل بھر کےلئے آنکھ لگی تھی
سو کر ہی نہ اٹھیں یہ ارادہ تو نہیں تھا

بہترین۔۔ بہت شکریہ فرخ صاحب
 

باباجی

محفلین
واہ واہ کیا ہی خوبصورت کلام جناب فیض کا
یہ شعر میں اپنے دستخط میں لکھنے لگا ہوں

واعظ سے رہ و رسم رہی رند سے صحبت
فرق ان میں کوئی اتنا زیادہ تو نہیں تھا
 

غ۔ن۔غ

محفلین
تھک کر یونہی پل بھر کےلئے آنکھ لگی تھی
سو کر ہی نہ اٹھیں یہ ارادہ تو نہیں تھا

واہ واہ کیا کہنے ، بہت ہی خوب انتخاب ،شئیر کرنے کے لیے بہت شکریہ جناب
 
Top