اعتبار ساجد

  1. خوشی

    اعتبار ساجد اندر سے کوئی گھنگھرو چھنکے کوئی گیت سنیں تو لکھیں بھی ،،،،،،،،،،، اعتبار ساجد

    اندر سے کوئی گھنگھرو چھنکے کوئی گیت سنیں تو لکھیں بھی ھم دھیان کی آگ میں تپتے ھیں کچھ اور تپیں تو لکھیں بھی یہ لوگ بیچارے کیا جانیں کیوں ھم نے حرف کا جوگ لیا اس راہ چلیں تو سمجھیں بھی اس آگ جلیں تو لکھیں بھی دن رات ھوئے ھم وقف رفو اب کیا محفل کیا فکرسخن یہ ہات رکیں تو سوچیں بھی یہ زخم سلیں تو...
  2. خوشی

    اعتبار ساجد کوئی کیسا ہم سفر ھے یہ ابھی سے مت بتاؤ ،،، اعتبار ساجد

    کوئی کیسا ہم سفر ھے یہ ابھی سے مت بتاؤ ابھی کیا پتہ کسی کا کہ چلی نہیں ھے ناؤ یہ ضروری تو نہیں ھے کہ سدا رھیں مراسم یہ سفر کی دوستی ھے اسے روگ مت بناؤ مرے چارہ گر بہت ھیں یہ خلش مگر ھے دل میں کوئی ایسا ہو کہ جس کو ہوں عزیز میرے گھاؤ تمہیں آئینہ گری میں ھے بہت کمال حاصل مرا دل ھے کرچی کرچی اسے...
  3. ف

    اعتبار ساجد کبھی تونے خود بھی سوچا کہ یہ پیاس ھے تو کیوں ھے - اعتبار ساجد

    اعتبار ساجد کبھی تونے خود بھی سوچا کہ یہ پیاس ھے تو کیوں ھے تجھے پا کے بھی مرادل جو اداس ھے تو کیوں ھے مجھے کیوں عزیز تر ھے یہ دھواں دھواں سا موسم یہ ھوائے شام ہجراں مجھے راس ھے تو کیوں ھے تجھے کھو کے سوچتا ھون مرے دامن طلب میں کوئی خواب ھے تو کیوں ھے کوئی آس ھے تو کیوں ھے میں اجر کے بھی...
  4. پ

    اعتبار ساجد غزل -ہونٹوں کے دو پھول رکھے تھے اس نے جب پیشانی پر- اعتبار ساجد

    ہونٹوں کے دو پھول رکھے تھے اس نے جب پیشانی پر چاند ہنسا تھا دیکھ کے ہم کو پاس ندی کے پانی پر جگمگ جگمگ کرئی آنکھیں مجھ کو اچھی لگتی ہیں قصہ لمبا کر دیتا ہوں بچوں کی حیرانی پر یہ بھی کوئی باتیں ہیں جن پر آنکھیں کھل جاتی ہیں میں حیران ہوا کرتا ہوں دنیا کی حیرانی پر ہوش وخرد ایسے کھوتے...
  5. خوشی

    خوشی کی پسندیدہ شاعری

    ,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,
  6. ظ

    اعتبار ساجد تیری طرح کوئی بھی، غمگسار ہو نہیں سکا

    تیری طرح کوئی بھی، غمگسار ہو نہیں سکا بچھڑ کے تجھ سے پھر ، کسی سے پیار ہو نہیں سکا جو خونِ دل کے رنگ میں ، ٹپک پڑے تھے آنکھ سے ان آنسوؤں کا مجھ سے ، کاروبار ہو نہیں سکا وہی تھا وہ , وہی تھا میں , شکستِ دل کے بعد بھی وہ مجھ سے اور میں اس سے ، شرمسار ہو نہیں سکا سپاٹ خال و خد...
  7. ظ

    اعتبار ساجد ابھی آگ پوری جلی نہیں , ابھی شعلے اونچے اٹھے نہیں ( اعتبار ساجد )

    ابھی آگ پوری جلی نہیں , ابھی شعلے اونچے اٹھے نہیں سو کہاں کا ہوں میں غزل سرا، مرے خال و خد بھی بنے نہیں ابھی سینہ زور نہیں ہوا میرے دل کے غم کا معاملہ کوئی گہرا درد نہیں ملا ، ابھی ایسے چرکے لگے نہیں اس سیل نور کی نسبتوں سے میرے دریچے دل میں آ میرے طاقچوں میں ہے روشنی، ابھی یہ...
  8. دل پاکستانی

    اعتبار ساجد یہ حسیں لوگ ہیں, تو ان کی مروت پہ نہ جا ۔ اعتبار ساجد

    یہ حسیں لوگ ہیں, تو ان کی مروت پہ نہ جا خود ہی اٹھ بیٹھ کسی اذن و اجازت پہ نہ جا صورت شمع تیرے سامنے روشن ہیں جو پھول ان کی کرنوں میں نہا, ذوق سماعت پہ نہ جا دل سی چیک بک ہے ترے پاس تجھے کیا دھڑکا جی کو بھا جائے کو پھر چیز کی قیمت پہ نہ جا اتنا کم ظرف نہ بن, اس کے بھی سینے میں ہے دل اس کا...
  9. دل پاکستانی

    اعتبار ساجد یونہی تنہا تنہا نہ خاک اُڑا، مری جان میرے قریب آ ۔ اعتبار ساجد

    یونہی تنہا تنہا نہ خاک اُڑا، مری جان میرے قریب آ میں بھی خستہ دل ہوں تری طرح مری مان میرے قریب آ میں سمندروں کی ہوا نہیں کہ تجھے دکھائی نہ دے سکوں کوئی بھولا بسرا خیال ہوں نہ گمان میرے قریب آ نہ چھپا کہ زخم وفا ہے کیا، تری آرزؤں کی کتھا ہے کیا تری چارہ گر نہ یہ زندگی نہ جہان میرے قریب آ...
  10. ن

    اعتبار ساجد نظم - خدا جانے تمہارے ذہن میں کیا ہے ؟ اعتبار ساجد

    اعتبار ساجد خدا جانے تمہارے ذہن میں کیا ہے ؟ مرے بارے میں تم کیا سوچتی ہو کہہ نہیں سکتا مگر میں اس لئے ملنے سے کتراتا ہوں تم سے کہ وہ باتیں جو ہم لکھتے ہیں اپنے خط میں چاہت سے وہ باتیں اور باتیں ہیں وہ باتیں ایسی باتیں ہیں کہ بس باتیں ہی باتیں ہیں حقیقت مختلف ہے ایسی باتوں...
  11. پ

    اعتبار ساجد غزل-تمہیں جب کبھی ملیں فرصتیں ،مرے دل سے بوجھ اتار دو(اعتبار ساجد

    تمہیں جب کبھی ملیں فرصتیں ،مرے دل سے بوجھ اتار دو میں بہت دنوں سے اداس ہوں مجھے کوئی شام ادھار دو مجھے اپنے روپ کی دھوپ دو کہ چمک سکیں مرے خال و خد مجھے اپنے رنگ میں رنگ دو ، مرے سارے زنگ اتار دو کسی اور کو مرے حال سے نہ غرض ہے کوئی نہ واسطہ میں بکھر گیا ہوں سمیٹ لو ، میں بگڑ گیا ہوں...
  12. فاروقی

    اعتبار ساجد نظم - ’’مرے خط مجھے واپس کردو ‘‘ - اعتبار ساجد

    کل یہ کہتی تھیں بچھڑ نا تمہیں منظور نہیں اب یہ کہتی ہو ’’ مرے خط مجھے واپس کردو‘‘ ذکر ، پیروں میں چھکتی ہوئی زنجیر کا ہے عذر ، بیماریٔ دل ، گردشِ تقدیر کا ہے فکر ، خوابوں کی بگڑتی ہوئی تعبیر کا خوف گذرے ہوئے دن رات کی تشہیر کا ہے گویا تم جیسا جہاں میں کوئی مجبور نہیں کل یہ...
  13. فاروقی

    اعتبار ساجد غزل - بے سود ہمیں روزنِ دیوار سے مت دیکھ - اعتبار ساجد

    بے سود ہمیں روزنِ دیوار سے مت دیکھ ہم اجڑے ہوئے لوگ، ہمیں پیار سے مت دیکھ پستی میں بھٹکنے کی ندامت نہ سوا کر مڑ مڑ کے مجھے رفعتِ کہسار سے مت دیکھ قیمت نہ لگا جذبۂ ایثارِ طلب کی ہر شے کو فقط چشمِ خریدار سے مت دیکھ پھر تجربۂ مرگ سے مت کر مجھے دوچار میں ہجر زدہ ہوں مجھے اس پیار...
  14. فاروقی

    اعتبار ساجد غزل - اپنی صفائی میں کوئی ہم نے بیاں نہیں دیا - اعتبا ساجد

    اپنی صفائی میں کوئی ہم نے بیاں نہیں دیا جل جل کے راکھ ہوگئے پھر بھی دھواں نہیں دیا کتنی تھی سنگ دل ہوا ، جس نے ہم اہلِ شوق کے سارے دیے بجھا دئیے اذنِ فغاں نہیں دیا ایسا نہیں ملا کوئی جس سے بیان حال ہو ورنہ تو اشتہار دل ہم نے کہاں نہیں دیا پنجرے کی جالیوں سے کچھ پھول دکھائی دے...
  15. جیا راؤ

    اعتبار ساجد کہ یہ عہدِ زندگی ہے۔۔ اعتبار ساجد

    کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ تمہارے دلگرفتہ تمہیں کتنا چاہتے ہیں ! تمہیں زندگی سے بڑھ کر جو عزیز ہم نے جانا سو کوئی سبب تو ہوگا کبھی تم نے یہ بھی سوچا ! سرِ شام منتظر تھے کہیں نیلمیں اجالے کہیں تتلیاں لبوں کی کہیں پھول جیسے عارض کہیں قمقموں سی آنکھیں یہ جو چارہ گر ہمارے کوئی ساعتِ...
  16. حجاب

    اعتبار ساجد آخری گفتگو ۔۔

    آخری گفتگو یہ تصویریں ہیں خط ہیں اور کچھ پرزے ہیں جن پر تم مجھے پیغام لکھتی تھیں انہیں محفوظ کرلو ہاں مگر افسوس ٹیلی فون پر جو گفتگو تم مجھ سے کرتی تھیں انہیں میں تم کو واپس کر نہیں سکتا جو میری دسترس میں تھا تمہارے سامنے ہے سب جو باقی ہے صدا ہے اب! (اعتبار ساجد )...
  17. ملائکہ

    اعتبار ساجد موت اس طرح نہ آئے

    موت اس طرح نہ آئے کہ کسی بیٹے کو تنگ آکر کبھی ہمسائے سے کہنا پڑجائے آپ کی مجھ پہ بہت خاص عنایت ہوگی میری خاطر اگر اک چھوٹی سی زحمت کرلیں آج کی رات کئی کام ضروری ہیں مجھے میرے بدلے میرے پاپا کی عیادت کرلیں اعتبار ساجد
  18. نوید ملک

    اعتبار ساجد دھوپ کے دشت میں شیشے کی ردائیں دی ہیں

    دھوپ کے دشت میں شیشے کی ردائیں دی ہیں زندگی! تو نے ہمیں کیسی سزائیں دی ہیں شعلوں جیسی ہی عطا کی ہیں سلگتی بوندیں آگ برساتی ہوئی ہم کو گھٹائیں دی ہیں اک دعا گو نے رفاقت کی تسلی دے کر عمر بھر ہجر میں جلنے کی سزائیں دی ہیں دل کو بجھنے کا بہانہ کوئی درکار تو تھا دکھ تو یہ ہے ترے...
  19. زینب

    اعتبار ساجد ڈھونڈتے کیا ہو ان آنکھوں میں۔۔۔۔۔۔۔

    ڈھونڈتے کیا ہو ان آنکھوں میں خود میں گم رہنا تو عادت ہے پرانی میری بھیڑ مین بھی تمہیں مل جاؤں گا آسانی سے کھویا کھویا ہوا رہنا ہے نشانی میری میں نے اک بار کہا تھا کہ بہت پیاسا ہوں تب سے مشہور ہوئی تشنہ دہانی میری یہی دیوار و درو بام تھے میرے ہم راز انہی گلیوں میں‌بھٹکتی تھی جوانی...
  20. خ

    اعتبار ساجد اب اہلِ دل بھی قصیدہ نگار اس کے ہوئے

    ہم اس خطا پہ بے اعتبار اس کے ہوئے کہ کیوں اسی سے شکایت گزار اس کے ہوئے اکیلے ہم ہی رہے اپنے صدقِ دل کی طرح گواہیوں میں سب اہلِ دیار اس کے ہوئے وہ کوئی اور ہدف ڈھونڈنے کہاں جاتا کہ پیشِ راہ تو ہمی تھے ، شکار اس کے ہوئے اگ آئے شہر کی گلیوں میں ایسے رمز شناس کہ خیر خواہ...
Top