اعتبار ساجد ابھی آگ پوری جلی نہیں , ابھی شعلے اونچے اٹھے نہیں ( اعتبار ساجد )

ظفری

لائبریرین

ابھی آگ پوری جلی نہیں , ابھی شعلے اونچے اٹھے نہیں
سو کہاں کا ہوں میں غزل سرا، مرے خال و خد بھی بنے نہیں

ابھی سینہ زور نہیں ہوا میرے دل کے غم کا معاملہ
کوئی گہرا درد نہیں ملا ، ابھی ایسے چرکے لگے نہیں

اس سیل نور کی نسبتوں سے میرے دریچے دل میں آ
میرے طاقچوں میں ہے روشنی، ابھی یہ چراغ بجھے نہیں

نہ میرے خیال کی انجمن ، نہ میرے مزاج کی شاعری
سو قیام کرتا میں کس جگہ ، میرے لوگ مجھ کو ملے نہیں

میری شہرتوں کے جو داغ ہیں ، میری محنتوں کے یہ باغ ہیں
یہ متاع و مال شکستگا ں ہیں , زکواۃ میں تو ملے نہیں

ابھی بیچ میں ہے یہ ماجرا, سو رہے گا جاری یہ سلسلہ
کہ بساط حرف و خیال پر ، ابھی پورے مہرے سجے نہیں

(اعتبار ساجد )
 

خوشی

محفلین
نہ میرے خیال کی انجمن ، نہ میرے مزاج کی شاعری
سو قیام کرتا میں کس جگہ ، میرے لوگ مجھ کو ملے نہیں


واہ بہت خوب بہت اچھے
 
Top