اعتبار ساجد غزل -ہونٹوں کے دو پھول رکھے تھے اس نے جب پیشانی پر- اعتبار ساجد

ہونٹوں کے دو پھول رکھے تھے اس نے جب پیشانی پر
چاند ہنسا تھا دیکھ کے ہم کو پاس ندی کے پانی پر

جگمگ جگمگ کرئی آنکھیں مجھ کو اچھی لگتی ہیں
قصہ لمبا کر دیتا ہوں بچوں کی حیرانی پر

یہ بھی کوئی باتیں ہیں جن پر آنکھیں کھل جاتی ہیں
میں حیران ہوا کرتا ہوں دنیا کی حیرانی پر

ہوش وخرد ایسے کھوتے ہیں‘ باپ بھلا ایسے ہوتے ہیں
بچہ بن کر چیخ رہے ہو بچوں کی نادانی پر


اے اس عہد کے بوڑھے بچو!آؤ ہمارے ساتھ چلو
لال گلابی ناؤ چلائیں ہرے سنہرے پانی پر

شام کے بعد ہی کھلتا ہے ہربھید نشیلی خوشبو کا
دن کو توجہ کب دیتا ہے کوئی رات کی رانی پر

اعتبار ساجد​
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے، معلوم نہیں شاعر کی غلطی ہے یا ٹائپ کرنے والے کی کہ ایک مصرع بحر سے کارج ہے
ہوش وخرد ایسے کھوتے ہیں‘ باپ بھلا ایسے ہوتے ہیں
 
Top