اعتبار ساجد اب اہلِ دل بھی قصیدہ نگار اس کے ہوئے



ہم اس خطا پہ بے اعتبار اس کے ہوئے

کہ کیوں اسی سے شکایت گزار اس کے ہوئے

اکیلے ہم ہی رہے اپنے صدقِ دل کی طرح

گواہیوں میں سب اہلِ دیار اس کے ہوئے

وہ کوئی اور ہدف ڈھونڈنے کہاں جاتا

کہ پیشِ راہ تو ہمی تھے ، شکار اس کے ہوئے

اگ آئے شہر کی گلیوں میں ایسے رمز شناس

کہ خیر خواہ مرے ، راز دار اس کے ہوئے

ہم اس کے ہجر میں گم تھے کہ یہ خبر گزری

عدوسے لوگ بھی اختر شمار اس کے ہوئے

اب اہلِ فن بھی لگے اس کی مدحتیں کرنے

اب اہلِ دل بھی قصیدہ نگار اس کے ہوئے​

اعتبار ساجد۔۔
 
Top