اعتبار ساجد

  1. ظ

    اعتبار ساجد ایسے نہ تھے ہم اہلِ دل ، اتنے کہاں خراب تھے

    ایسے نہ تھے ہم اہلِ دل ، اتنے کہاں خراب تھے ہم بھی کسی کی آس تھے ، ہم بھی کسی کا خواب تھے اب جو ہوئے ہیں خیر سے ، راندۂ خلقِ شہر ہم چہرۂ شب کا نور تھے ، شیشۂ فن کی آب تھے دل پہ کسی کے نقش تھے صورتِ حرف آرزو اس کی کتابِ زیست میں لائقِ انتساب تھے ایسی تھیں وہ رفاقتیں ، جیسے ہم...
  2. فرحت کیانی

    اعتبار ساجد آگ میں پھول۔۔۔ اعتبار ساجد

    آگ میں پھول آٹو ورکشاپ میں کام کرنے والے ایک معصوم مکینک کا استفسار تم کن پر نظمیں لکھتے ہو تم کن پر گیت بناتے ہو تم کن کے شعلے اوڑھتے ہو تم کن کی آگ بجھاتے ہو اے دیدہ ورو! انصاف کرو اس آگ پہ تم نے کیا لکھا؟ جس آگ میں سب کچھ راکھ ہُوا مری منزل بھی، مرا رستہ بھی مرا مکتب بھی، مرا...
  3. فرحت کیانی

    اعتبار ساجد تجھ سے بچھڑ کر آنکھوں کو نم کس لئے کریں - اعتبار ساجد

    تجھ سے بچھڑ کر آنکھوں کو نم کس لئے کریں تجھ کو نہیں ملال تو ہم کس لئے کریں دنیا کی بے رُخی تونہیں ہے کوئی جواز اس شدتِ خلوص کو کم کس لئے کریں تا عمر قربتوں کو تو امکان ہی ناں تھا آنکھیں فراقِ یار کا غم کس لئے کریں اپنا جنوں داد و ستائش سے بے نیاز پھر بے خودی کا حال رقم کس لئے کریں جن کے...
  4. نوید ملک

    اعتبار ساجد “ سال کی آخری نظم “

    یہ سال بھی آخر بیت گیا کچھ ٹیسیں ، یادیں ، خواب لئے کچھ کلیاں ، چند گلاب لئے کچھ انکھڑیاں ، پُرآب لئے کچھ اجلے دن ، کالی راتیں کچھ سچے دکھ ، جھوٹی باتیں کچھ تپتی رُتیں ، کچھ برساتیں کسی یار ، عزیز کا دکھ پیارا کسی چھت پہ امیدوں کا تارا جس پہ ہنستا تھا جگ سارا اِس شاعر نے جو حرف...
  5. شعیب صفدر

    اعتبار ساجد جو خیال تھے نہ قیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے۔۔۔ اعتبار ساجد

    جو خیال تھے نہ قیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے جو محبتوں کے اساس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے جنہیں مانتا ہی نہیں یہ دل، وہی لوگ میرے ہیں ہمسفر مجھے ہر طرح سے جوراس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے مجھے لمحہ بھر کی رفاقتوں کے سراب اور ستائیں گے میری عمر بھر کی جو پیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے...
Top