الف عین

  1. Misbahuddin Ansari Misbah

    غزل برائے اصلاح

    اسلام وعلیکم ایک ادنی سی کاوش اصلاح کی غرض سے حاضر ہے..... نہ پیچھے کو ہٹنا بغاوت کے بعد تمھیں حق ملےگا شجاعت کے بعد ذرا غور سے دیکھنا بھی گنہ ہے کرے وہ شکایت اطاعت کے بعد چلی چال سرمایہ داروں نے اب یہ لڑے عام جنتا ذلالت کے بعد اگر وقت پر کام آ نہ سکے تو نظر نا اٹھےگی شخاوت کے بعد کبھی...
  2. Misbahuddin Ansari Misbah

    ہم نوا تو ہے رازداں تو ہے

    اسلام و علیکم محفلین غزل برائے اصلاح حاضر ہے غزل ہم نوا تو ہے رازداں تو ہے میرے دلبر نشاط جاں تو ہے تو کرے خاک یا چمن کر دے اس گلستاں کا باغباں تو ہے ساتھ ہو تیرا اور کیا چاہوں میں زمیں اور آسماں تو ہے میرے مولا مری حفاظت کر تُو ہی خالق ہے پاسباں تو ہے پھول سا کھل گیا چمن سارا ایک اک ذرے...
  3. ذیشان لاشاری

    برائے اصلاح

    اس غزل میں ردیف "نا ہے" قابلِ قبول ہے یا نہیں۔ استاذہ کرام برائے مہربانی رہنمائی فرمادیں۔ نیز اور کوئی خرابی ہو تو وہ بھی بتا دیں صدا بلبل کی نا ہو جس میں وہ گلزار نا ہے نہیں ہے فصلِ گل جب دل بے برگ و بار نا ہے نہ پگھلائے جو پتھر وہ نہیں فریاد میری لہو گرما نہ دے جو وہ مری گفتار نا ہے کہ...
  4. خ

    اصلاحِ سخن : لہجے کو تیرے دیکھا یہ حاجت نہیں رہی

    استاتذۂ اکرم سے اصلاح کی گزارش ہے مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن لہجے کو تیرے دیکھا تو حاجت نہیں رہی کہدے تو یہ کہ تیری ضرورت نہیں رہی اب خال خال ہی ہیں محبت سناش لوگ ظاہر ہے ایسے کاموں سے رغبت نہیں رہی مردہ سا ہو گیا ہے یہ تہذیب کا بدن اس کے لہو میں اب وہ حرارت نہیں رہی اب تو بہار...
  5. خ

    اصلاحِ سخن :جس کو رنج والم نے گھیرا ہے

    اساتذۂ اکرام سے اصلاح کی گزارش ھے بخش دے گا جسے وہ چاہے گا جس کو چاہے گا وہ عذاب کرے جس کو رنج و الم نے گھیرا ہے خواہشوں سے وہ اجتناب کرے خود بھی اپنا حساب کر لینا اس سے پہلے کہ وہ حساب کرے حق و باطل ہو چکا ہے عیاں جسے چاہے تو انتخاب کرے زندگی ایک امتحان ہے دوست رب تجھے اس میں کامیاب...
  6. خ

    اصلاحِ سخن " وہ خاک ہو گئے ان کا نشاں نہیں ملتا "

    مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فِعْلن الف عین سر اور دیگر اساتذہ کی خدمت میں اصلاح کیلئے ایک غزل کہیں مکین کہیں پر مکاں نہیں ملتا جہاں پہ غم نہ ہو ایسا جہاں نہیں ملتا جو تم سے پہلے یہاں اور لوگ رہتے تھے وہ خاک ہو گئے ان کا نشاں نہیں ملتا ترے فریب سے بچائے اب خدا ہم کو کہ تیرے لہجے سے تیرا...
  7. محمد شکیل خورشید

    چھوٹی بحر میں کاوش۔ اصلاح کی منتظر

    رات بھر سوچا نہ کر بے سبب رویا نہ کر وہ نہ واپس آئے گا دیر تک جاگا نہ کر فکر کی پرواز کو اس قدر اونچا نہ کر اپنے گھر کو لوٹ جا یوں سڑک ناپا نہ کر راستے کی دھول میں منزلیں کھویا نہ کر سچ سنا نہ جائے گا سوچ لے، ایسا نہ کر مِیچ لے آنکھیں شکیل حسن کو رسوا نہ کر
  8. خ

    برائے اصلاح " ایک عالم ہے بے قراری کا"

    اساتذۂ اکرام سے اصلاح کی گزاراش ہے ایک عالم ہے بے قراری کا گویا موسم ہے آہ و زاری کا جس کا دل ہے غموں کا شیدائی اسے کیا شکوہ غم گساری کا عشق میں دل تو ہو گیا ایسے جیسے کاسہ کسی بھکاری کا بے خبر تھے جو ہم سمجھتے تھے عشق کو کھیل اک مداری کا ابتدا سے ہے دمِ آخر تک زندگی نام بے قراری کا
  9. آ

    نظم برائے اصلاح

    عید مبارک پیارے بچو رنگ برنگے کپڑے پہنو بارہ مہینوں کے بعد آئے تین دنوں میں ختم ہو جائے چٹ پٹے پکوان بنیں گے خوان سے دستر خوان سجیں گے عید ہے اک تہوار خوشی کا لاتی ہے انبار خوشی کا ہر چہرے پر پھول کھلیں گے جب اپنوں سے عید ملیں گے سارے شکوے دل سے مٹاؤ روٹھے ہیں جو ان کو مناؤ گیت خوشی کے مل...
  10. آ

    برائے اصلاح

    جس نے دیکھے نہیں پھول کھلتے ہوئے وہ اسے دیکھ لے جا کے ہنستے ہوئے عشق کی موت مارا گیا ہے کوئی حسن کی وادیوں سے گزرتے ہوئے چشمِ بد دور ہو اس نے ایسا کہا جس نے دیکھا ہمیں ساتھ چلتے ہوئے رات میں خواب میں ڈر گیا دوستو میں نے دیکھا کسی کو بچھڑتے ہوئے میں کسی اور جہاں میں ہوا کرتا ہوں دور اس دنیا...
  11. آ

    برائے اصلاح

    ٹھوکروں کا یہ اثر دل پر ہوا ایک شیشہ تھا مگر پتھر ہوا اشک آتے ہیں نہ آتا ہے لہو ایک مدت سے نہ دیدہ تر ہوا غیر کو آواز دی تجھ نام سے نام تیرا یوں ہمیں ازبر ہوا ہم سے ملنا ہو تو لو اس کا پتہ اس کا کوچہ ہی ہمارا گھر ہوا اب تری یادوں کے پھول اگتے نہیں دل ہمارا آخرش بنجر ہوا حل ہوا دیرینہ تھا اک...
  12. آ

    برائے اصلاح

    موسم آیا فصلِ گل کا چل کے چلیں ہم سوئے صحرا آیا جھونکا مست ہوا کا چھو کے کوئی پھول شگفتہ پھر سے ہو گی وحشت طاری چاک گریباں ہو گا اپنا موسم آیا فصلِ گل کا چل کے چلیں ہم سوئے صحرا یاد تمھاری ،خواب تمھارے اور سوا کیا ،پاس ہمارے رات گزاری گن کے تارے صحرا گردی میں دن گزرا موسم آیا فصلِ گل کا چل...
  13. ذیشان لاشاری

    آپ کی آنکھیں ۔ برائے اصلاح

    مرے شب کے اندھیرے میں دیا ہیں آپ کی آنکھیں مرے ظلمت کدے کا آسرا ہیں آپ کی آنکھیں ہیں کلیاں٬ چاند٬ تارے٬ جھیل یا پھر رات کی رانی اگر یہ سب نہیں تو اور کیا ہیں آپ کی آنکھیں اگر محفل میں ہیں تو پھر تو ہیں یہ رونق محفل ہیں تنہا گر کہیں تو پھر دعا ہیں آپ کی آنکھیں یہ فن پارے کسی قابل مصور کے بھی...
  14. ذوالفقار نقوی

    زبان

    مفقود کے ساتھ میں درست ہے یا سے مثلاً.... سچائی جہان سے مفقود ہو چکی ہے یا سچائی جہان میں مفقود ہو چکی ہے
  15. فاخر

    اصلاح سخن: عید کی ہرخوشی ہو مبارک تجھے

    عید کی ہرخوشی ہو مبارک تجھے حضرت الف عین مدظلہ العالی سے نظر کرم کی خصوصی درخواست کے ساتھ: فاخر ؔ اس غزل میں ’نگار ِ پری پیکر سے عید کی مبارک بادی‘کے ضمن میں ’’خطاب‘ہے۔ جشن کی یہ گھڑی، ہو مبارک تجھے عید کی ہر خوشی ، ہو مبارک تجھے اے مرے دلربا ، ساقیا ، دل نشیں! زیست کی خسروی ، ہو مبارک...
  16. ارشد چوہدری

    جب گناہوں کو ہے سوچا تو پسینہ آ گیا--برائے اصلاح

    الف عین فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن ------------ جب گناہوں کو ہے سوچا تو پسینہ آ گیا بخشوانے کے لئے ہی یہ مہینہ آ گیا ---------- آج رحمت جوش میں ہے اور معافی عام ہے پاس اپنے سوچتا ہوں اک نگینہ آ گیا -------------- قید میں شیطان ہے یہ سوچنے کی بات ہے...
  17. محمد ابراہیم خان افغان

    شیر اور ببر شیر، ایک غلط فہمی کا ازالہ

    "شیر" اصلا ایک فارسی لفظ ہے جو اردو اور ہندی میں غالبا مغل دور سے یا اس سے بھی پہلے استعمال ہوتا چلا آرہا ہے۔ فارسی زبان میں اس کا معین اور غیر مبہم مفہوم وہی ہے جو انگریزی میں لفظ Lion عربی میں اسد، لاطینی Leo اور ہندی میں سنگھ یا سِنہ (سِنہہ) (सिंह) کا ہے۔ فارسی میں Tiger کیلئے "بَبْر" (باء کے...
  18. ارشد چوہدری

    غزل برائے اصلاح

    الف عین @عظیم،فلسفی،یاسر شاہ،خلیل الر حمن ----------------- افاعیل مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن -------------- میں نے اپنے خیالوں میں نئی بستی بسائی ہے بسایا ہے اُسے دل میں ، زمانے سے چھپائی ہے ------------- خیالوں کے گھرانے ہیں یہاں رہتے ہیں سب مل کر یہاں دشمن نہیں...
  19. ذیشان لاشاری

    برائے اصلاح

    سدا دروازے پر آنکھیں رہیں گی مسلسل جاگتی راتیں رہیں گی وہ آئیں گے تو پھر خوشیاں بھی ہونگی وگرنہ غم کی سوغاتیں رہیں گی یہ ساون بھی ہے وابستہ تمہی سے تم آؤ گے تو برساتیں رہیں گی مٹا دو فاصلے۔ اب درمیاں میں مری جاں کب تلک راہیں رہیں گی ابھی آنا ہے تو آؤ وگرنہ نہ یہ موسم نہ یہ راتیں رہیں گی...
Top