غزل برائے اصلاح" آنکھوں میں بسے خوابوں کی تعبیر لکھے کون

استادِ محترم سر الف عین سید عاطف علی
محمّد احسن سمیع :راحل: و دگر احباب سے اصلاح کی گزارش ہے


آنکھوں میں بسے خوابوں کی تعبیر لکھے کون
اب عشق کو انسان کی تقصیر لکھے کون

لکھنے تھے ہمیں بھی دلِ بیتاب کے حالات
ہوتی ہے مگر درد کی تشہیر لکھے کون

لکھنے کو میسر ہوں اگر لوح و قلم بھی
تیرے لب و رخسار کی تفسیر لکھے کون

سوچا تھا لکھوں تجھ کو بھی میں بے وفا لیکن
ہوتی ہے مرے عشق کی تحقیر لکھے کون

لکھنا جو ہوا مجھ کو تو مقتل میں لکھوں گا
اس وادئ پر خون کو کشمیر لکھے کون



شکریہ۔۔
 

نور وجدان

لائبریرین
اچھی غزل ہے. آخری شعر کچھ واضح نہیں ، ربط کی کمی ہے

وادی ء پر خون بھی ہے
آپ لکھیں گے کشمیر مقتل میں

شعر بنا نہیں ہے

اک رائے ہے
مقتل بھی پرخون ہوتا ہے
 
اچھی غزل ہے. آخری شعر کچھ واضح نہیں ، ربط کی کمی ہے

وادی ء پر خون بھی ہے
آپ لکھیں گے کشمیر مقتل میں

شعر بنا نہیں ہے

اک رائے ہے
مقتل بھی پرخون ہوتا ہے
مقطعے کے پہلے مصرعے میں "میں" ضمیر ہے، واحد متکلم
یعنی اگر شاعر کو لکھنا ہوا تو وہ اس خونیں وادی کو مقتل لکھے گا، کشمیر نہیں.
 
ریحان میاں، آداب.

کچھ اشعار واقعی اچھے نکالے ہیں آپ نے، جیسے کہ دوسرا اور تیسرا شعر.
مطلع مجھے تو کچھ دو لخت لگا، ممکن ہے میرے فہم کا نقص ہو.
آنکھوں میں بسے خوابوں کی تعبیر لکھے کون
اب عشق کو انسان کی تقصیر لکھے کون
پہلے مصرعے میں خوابوں کی و کا اسقاط اچھا نہیں لگتا، روانی میں خلل آتا ہے.

سوچا تھا لکھوں تجھ کو بھی میں بے وفا لیکن
ہوتی ہے مرے عشق کی تحقیر لکھے کون
پہلے مصرعے میں بھی کی ی کا گرنا، گویا میں بھی کا مبھی تقطیع ہونا اچھا نہیں لگ رہا.
یہاں مجھے ردیف بھی ٹھیک طرح نبھتی ہوئی محسوس نہیں ہوتی.

مقطع مجھے ویسے تو ٹھیک لگ رہا ہے، اگر الفاظ بدلنے سے بیان مزید صاف ہوسکتا ہے تو مزید فکر کرنے میں کوئی حرج نہیں.

دعاگو،
راحل.
 
ریحان میاں، آداب.

کچھ اشعار واقعی اچھے نکالے ہیں آپ نے، جیسے کہ دوسرا اور تیسرا شعر.
مطلع مجھے تو کچھ دو لخت لگا، ممکن ہے میرے فہم کا نقص ہو.

پہلے مصرعے میں خوابوں کی و کا اسقاط اچھا نہیں لگتا، روانی میں خلل آتا ہے.


پہلے مصرعے میں بھی کی ی کا گرنا، گویا میں بھی کا مبھی تقطیع ہونا اچھا نہیں لگ رہا.
یہاں مجھے ردیف بھی ٹھیک طرح نبھتی ہوئی محسوس نہیں ہوتی.

مقطع مجھے ویسے تو ٹھیک لگ رہا ہے، اگر الفاظ بدلنے سے بیان مزید صاف ہوسکتا ہے تو مزید فکر کرنے میں کوئی حرج نہیں.

دعاگو،
راحل.
شکریہ راحل بھائی مشورہ دینے کیلئے اب مطلح کے بارے میں استادِ محترم کی راے کا انتظار رہے گا باقی جو خامیاں ہیں انہیں دور کرنے کی کوشش کرتا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
مطلع میں واقعی وضاحت کی کمی ہے، خوابوں کی جگہ محض واحد خواب بھی آ سکتا ہے، باقی اشعار درست ہیں میرے خیال میں
 

نور وجدان

لائبریرین
مقطعے کے پہلے مصرعے میں "میں" ضمیر ہے، واحد متکلم
یعنی اگر شاعر کو لکھنا ہوا تو وہ اس خونیں وادی کو مقتل لکھے گا، کشمیر نہیں.
لکھنا جو ہوا مجھ کو تو مقتل میں لکھوں گا
اس صورت میں ''میں '' کو شروع میں آنا چاہیے تھا اور دوسرا اسکو ''کا، کی ،کو ۔۔ کے وزن پر باندھنا فصیح نہیں ہے بلکہ وزن گر جاتا ہے ۔۔'میں بصورت واحد متکلم فع کے وزن پر باندھ جاتا ہے
 
اس صورت میں ''میں '' کو شروع میں آنا چاہیے تھا
کس اصول کے تحت؟؟؟
تعقید لفظی پر اعتراض کیا جاسکتا ہے، مگر میرے خیال میں یہاں زیادہ مسئلہ نہیں۔

دوسرا اسکو ''کا، کی ،کو ۔۔ کے وزن پر باندھنا فصیح نہیں ہے بلکہ وزن گر جاتا ہے ۔۔'میں بصورت واحد متکلم فع کے وزن پر باندھ جاتا ہے
عجیب بات کی ہے آپ نے یہاں ۔۔۔ کا، کو، کی اور فع کے وزن میں کیا فرق ہے؟؟؟ اگر میں بطور ضمیر واحد متکلم فع کے وزن پر باندھنا ضروری ہے تو کا یا کی کے وزن پر باندھنا غیر فصیح کیسے ہوا؟؟؟
دوسرے یہ کہ میں، بطور ضمیر، کی ی کا اسقاط بالکل جائز ہے، اور اساتذہ کے یہاں مستعمل بھی ہے۔ ذیل میں غالبؔ کے دو اشعار موجود ہیں جہاں ’’میں‘‘ کی ی کو ساقط کیا گیا ہے۔

تھا میں گلدستۂ احباب کی بندش کی گیاہ
متفرق ہوئے میرے رفقا میرے بعد

کہتے ہیں جب رہی نہ مجھے طاقتِ سخن
جانوں کسی کے دل کی میں کیوں کر کہے بغیر

دعاگو،
راحلؔ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
دوسرے یہ کہ میں، بطور ضمیر، کی ی کا اسقاط بالکل جائز ہے، اور اساتذہ کے یہاں مستعمل بھی ہے۔ ذیل میں غالبؔ کے دو اشعار موجود ہیں جہاں ’’میں‘‘ کی ی کو ساقط کیا گیا ہے۔

تقطیع کا اصول 1 اور 2 سے سیکھا ، اس لیے ان ٹرمز کو لکھنا محال ہے جو اکثر عروض کے لیے مستعمل ہے ۔۔ میں نے اسقاط کی بات کی تھی اور آپ اس بات پر پہنچ گئے ۔ میں نے ادھر سے یہی سیکھا ہے میں جب متکلم کے طور پر ہو تو ی گرانا فصیح نہیں ہے ۔ اس لیے کہہ دیا تھا ۔ میں تو اسی طرح بات کرکے سیکھ جاتی ہوں اور آپ نے برا نہیں منایا ہوگا :)، آپ کا بہت شکریہ
 
تقطیع کا اصول 1 اور 2 سے سیکھا ، اس لیے ان ٹرمز کو لکھنا محال ہے جو اکثر عروض کے لیے مستعمل ہے ۔۔ میں نے اسقاط کی بات کی تھی اور آپ اس بات پر پہنچ گئے ۔ میں نے ادھر سے یہی سیکھا ہے میں جب متکلم کے طور پر ہو تو ی گرانا فصیح نہیں ہے ۔ اس لیے کہہ دیا تھا ۔ میں تو اسی طرح بات کرکے سیکھ جاتی ہوں اور آپ نے برا نہیں منایا ہوگا :)، آپ کا بہت شکریہ
بہن 1،2 کی گردان کریں تب بھی کا، کی، کو اور میں کا اصل وزن 2 ہی ہوتا ہے، لیکن ان سب میں حروف علت کا اسقاط بالاتفاق جائز ہے، درآں حالیکہ کسی اور وجہ سے روانی می‍ں خلل نہ آ رہا ہو، مثلا آگے پیچھے مزید حروف کا اسقاط کیا گیا ہو.

غالب کی مثال اوپر دی گئی ہے، اب ان سے بڑھ کر فصاحت کی سند کون ہوگا.
اس میں برا ماننے والی کوئی بات نہیں.
 
Top