نتائج تلاش

  1. م

    آیک غزل برائے اصلاح و تبصرہ،'' آخرش درد بلا خیز نے پھر آن لیا''

    آخرش درد بلا خیز نے پھر آن لیا جس سے بچتے تھے عدو تیز نے پھر آن لیا اُس کی باتوں میں بڑی کاٹ تھی خنجر جیسی بس رقابت میں فتن بیز نے پھر آن لیا دل کے سنبھلا بھی نہیں تھا ترے غم سے پاگل رنج رقت سے ہی انگیز نے پھر آن لیا اس کہانی کا بھی انجام کوئی بتلاو ختم بیماری، تو پرہیز نے پھر آن...
  2. م

    ایک غزل،'' آ گئی ہے بہار آو تو '' اصلاح کے لئے پیش ہے

    آ گئی ہے بہار آو تو ختم ہو انتظار آو تو پتا پتا چہک رہا ہو گا ڈالی ڈالی نکھار آو تو پھول بھی مسکُرا رہے ہوں گے اور ہم اشکبار آو تو پھر محبت میں سوچنا کیسا جیت ہو اب کہ ہار آو تو کل ترا تھا میں آج تیرا ہوں کیا نہیں اعتبار؟ آو تو جان تیرے لئے ہے دل بھی ہے سب ترے اختیار آو تو...
  3. م

    اک گیت اصلاح دے لئی،'' مٹھی مٹھی کڑی ہیں توں، مٹھا مٹھا بول ،، اصحاب علم توجہ کرن جیا

    مٹھی مٹھی کڑی ہیں توں، مٹھا مٹھا بول نی سجے کدی کھبے ایویں پھردی نہ ڈول نی گڈی مری اُڈ دی سی، ڈور اودی کپ کے نظراں بچاندا جانی جاپ کئی جپ کے ملنے میں آیا تینوں، کوٹھے تن ٹپ کے گنڈاں پیاں پیار وچ، بے جا اج کھول نی مٹھی مٹھی کڑی ہیں توں، مٹھا مٹھا بول نی ماں نے پھواڑا پایا، گچی مری نپ...
  4. م

    مبارکباد مبروک شہر رمضان

    الف الف مبروک شہر رمضان یا مسلمین
  5. م

    ایک غزل،'' وہ بھی کیا لوگ ہوا کرتے تھے مے خانوں میں ''

    وہ بھی کیا لوگ ہوا کرتے تھے مے خانوں میں مے بھی رقصاں سی رہا کرتی تھی پیمانوں میں درد غیروں کا بھی محسوس ہوا کرتا تھا خوف باقی تھا خدا کا ابھی انسانوں میں سرد موسم بھی نہیں ہے، تو ہے یہ کیوں بارد خون تو اب بھی رواں ہے وہی شریانوں میں تُم نہ ملتے تو یہ شائد کہ خطا ہو جاتے کچھ ہی باقی...
  6. م

    رنگ، خوشبو، جمال کے ہونگے , اصلاح کی درخواست ہے

    رنگ، خوشبو، جمال کے ہونگے سارے قصے وصال کے ہونگے حسن تو بےمثال ہی ہو گا اور چرچے خصال کے ہونگے گیت گائیں گی چوڑیاں کھن کھن پھر وہ غمزے کمال کے ہوں گے اور طبیعت مچل ہی جائے گی جبکہ عارض گلال کے ہونگے وحشتیں پھر عروج پر ہوں گی خوف لاحق زوال کے ہونگے ہم نے کیا کیا جواب سوچے ہیں...
  7. م

    ایک تازہ غزل '' خسُ خاشاک جہاں پر تھے وہیں پھول گیا مدتوں یاد رہا،'' اصلاح کی درخواست

    خسُ خاشاک جہاں پر تھے وہیں پھول گیا مدتوں یاد رہا، پھر وہ مجھے بھول گیا گرد بڑھتی ہی رہی، جس کا نہ ادراک ہوا وقت جزبات پہ چھڑکاتا ہوا دھول گیا ایک ہی دن کے ہوئے یار وہ بیمار بہت سب ضروری جو سمجھتے تھے وہ معمول گیا قد برابر جو پڑی بجلی تو پھر چین کہاں جس پہ نازاں وہ رہے، سارا وہیں...
  8. م

    اصلاح کی درخواست،'' تصور تھا تو پھر تصویر بنتے دیر کیا لگتی

    تصور تھا تو پھر تصویر بنتے دیر کیا لگتی تدبر تھا تو پھر تدبیر بنتے دیر کیا لگتی بنی تفسیر قرآں کی، حیات پاک، رحمت سے مفسر تھا خدا، تفسیر بنتے دیر کیا لگتی بڑے آنسو بہائے اور روئے، گڑگڑائے بھی خدا سے مانگ کی، تقدیر بنتے دیر کیا لگتی بنا اسلام کی پکی، بڑا بے عیب تھا بے شک ہنر معمار...
  9. م

    بھول جائیں تو ہمیں یاد کرانے لکھنا ----- ایک غزل برائے اصلاح

    بھول جائیں تو ہمیں یاد کرانے لکھنا ہجرتیں آتی رہیں بھی تو ٹھکانے لکھنا ایک بھی تیر لگا، اور نہ محبت پائی سب کے سب چوک گئے ہیں جو نشانے لکھنا یوں سنا ہے کہ وہاں تم بھی رقیبوں سے ملے جل کے مر جائیں گے شائد تو جلانے لکھنا لکھ سکو حرف جو تھوڑے سے، چلو لکھ دینا ملنا ممکن ہی نہیں ہے تو...
  10. م

    اساتذہ سے ایک سوال

    بحر رمل مثمن محزوف جس کے افاعیل ہیں فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلُن کیا اسے فاعلات فاعلات فاعلات فاعلُن لیا جا سکتا ہے
  11. م

    ایک غزل برائے اصلاح، '' بھلائی جان کے بھر دو ایاغ دھیرے سے ''

    بھلائی جان کے بھر دو ایاغ ، دھیرے سے ملے گا تشنہ لبو، پھر فراغ، دھیرے سے میں کھوج لوں گا محبت، جو دفن کر دی تھی کریدنا بھی پڑا، دل کا داغ ، دھیرے سے ذرا سی نیند ملی ہے، الم کی بانہوں میں بجھانا چاہو بجھا دو چراغ، دھیرے سے کدورتوں کی وجہ جاننا ضروری ہے ملے گا اُن کا اچانک، سراغ،...
  12. م

    ایک غزل اصلاح کے لئے،'' وہ ایسے ہجر میں رو رو دہائی دیتی ہے''

    وہ ایسے ہجر میں رو رو دہائی دیتی ہے خرد جنون کے صدقے دکھائی دیتی ہے گزر گیا ہے زمانہ مگر تعجب ہے صدا وہیں ہے جو گزرو سنائی دیتی ہے زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو خدا ملے نہ ملے، پر رسائی دیتی ہے بخل ہے عیب، بری ہے فضول خرچی بھی تونگروں کو بھی دیکھا گدائی دیتی ہے بری نہیں ہے، وہ لگتی...
  13. م

    ایک نظم،'' خدا کی بستی میں'' اصلاح کے لئے پیش کرتا ہوں

    خدا کی بستی میں نہ باقی عدل رہا جب خدا کی بستی میں طویل جبر ہوا تب خدا کی بستی میں خدا ملے گا مجھے کب خدا کی بستی میں پکارتا ہوں میں یا رب خدا کی بستی میں کسے گئے ہیں خدایا تمام دستی میں کوئی خدا کو پکارو، خدا کی بستی میں رہو جو عیش میں تُم، یہ اُداس رہتے ہیں لبوں پہ چپ سی لگی ہے،...
  14. م

    ایک طرحی غزل،'' جو کھو گیا تھا، تری ذات کے تعاقب میں'' مصرع طرح

    ملا نہ وقت وہ حالات کے تعاقب میں جو کھو گیا تھا، تری ذات کے تعاقب میں ذرا سی دیر میں دیکھا کہ شام ڈھل بھی گئی یہ دن بھی ڈوب گیا، رات کے تعاقب میں تُو ایک پل میں کہے گا، پہ ہم بتائیں گے تمام عمر، وجوہات کے تعاقب میں کہو نہ حرف بھی سوچو کہیں بُرا تو نہیں رہو ہمیشہ خیالات کے تعاقب میں مری ہی...
  15. م

    ایک غزل برائے اصلاح،'' ہجر کیسا ہو آ کہ ٹل جائے''

    ہجر کیسا ہو، آ کہ ٹل جائے زندگی کا نظام چل جائے کاش یہ اختیار مل جاتا آج جیسا نا میرا کل جائے کیوں نہیں ہو سکا یہ دنیا میں ساتھ مشکل کہ اُس کا حل جائے لب جو کھولوں تو ڈر بھی لگتا ہے بات اچھی بھی تُم کو کھل جائے ہوئی قسمت تو پھر ملیں گے ہم یہ بھی ممکن ہے ہاتھ مل جائے تُم تو...
  16. م

    ایک غزل برائے اصلاح، '' راستے پر خار بھی تھے، جو سکوں سے کٹ گئے ''

    راستے پر خار بھی تھے، جو سکوں سے کٹ گئے بلبلے تھے، جب بھی ٹکرائے کہیں تو پھٹ گئے اب کہاں جائیں کے منظر دھندلا سا ہو گیا صاف چمکیلے سے رستے، گرد سے یوں اٹ گئے ہم کو دے سکتا نہیں دشمن کوئی بھی مات پر آگ، پانی اور ہوا، سب آج مل کر ڈٹ گئے کس طرح اشرف رہے، یہ بات سمجھاو مجھے جوتیوں میں...
  17. م

    اک گیت اصلاح دے لئی،'' سجناں دے پیراں دی آواز نئیں آندی ،، اصحاب علم توجہ کرن جیا

    پنجابی دے عالماں توں گزارش ہے کہ کجھ مدد فرمان، اک گیت لکھن دی کوشش کیتی اے، لیکن ہن تک کوئی گیت ایسا پڑھیا نئیں کی کوئی قائدہ قانون پنجابی شاعری دا سمجھ آ سکدا، کوئی صاحب علم روشنی پاوے تے ساڈے علم وچ اضافہ کرے سجناں دے پیراں دی آواز نئیں آندی نبض وی ہتھاں وچ ڈبی ڈبی جاندی چار چفیرے...
  18. م

    ایک غزل رہنمائی کے لئے۔'' گل تو تھا گل سے گلستاں نہ بنا ''

    گل تو تھا گل سے گلستاں نہ بنا ایک تنکے سے آشیاں نہ بنا ساری دنیا نئی بسانی پڑی صرف آدم سے تو جہاں نہ بنا جس طرح خاک سے بنا آدم اُس سہولت سے آسماں نہ بنا شمس جلتا رہا مرے سر پہ میں نے چاہا بھی سائباں نہ بنا روٹھ کر پھر خلیج بڑھتی گئی کوئی پُل بھی تو درمیاں نہ بنا اک زمانہ لیا...
  19. م

    لگے ہاتھوں ہائکو پر ایک طبع آزمائی

    آمد تیری ہو مہکے رات کی رانی تو پھر عید میری ہو گُل کا مہکنا چڑیوں کا چہکنا ہو کیوں نہ بہکنا
  20. م

    ایک نظم حاضر ہے ، '' بال''

    بال وہی موسم ہے، بارش ہے، مگر چاہت نہیں باقی وہی ہیٹر لگا کمرہ، مگر راحت نہیں باقی الجھ بیٹھے تھے ہم دونو، ذرا سی بات کو لے کر لڑائی ہو گئی تھی سرد پھیلی رات کو لے کر مری منطق مطابق، رات سردی کی نہیں اچھی ترا کہنا، سہانی سرد راتیں ہیں کہیں اچھی وہی میں سوچتا ہوں بال ڈالا، بات...
Top