ایک نظم،'' خدا کی بستی میں'' اصلاح کے لئے پیش کرتا ہوں

خدا کی بستی میں

نہ باقی عدل رہا جب خدا کی بستی میں
طویل جبر ہوا تب خدا کی بستی میں
خدا ملے گا مجھے کب خدا کی بستی میں
پکارتا ہوں میں یا رب خدا کی بستی میں

کسے گئے ہیں خدایا تمام دستی میں
کوئی خدا کو پکارو، خدا کی بستی میں

رہو جو عیش میں تُم، یہ اُداس رہتے ہیں
لبوں پہ چپ سی لگی ہے، نظر سے کہتے ہیں
کئی ہیں ظلم زمانے کے روز سہتے ہیں
جدھر بہاو ہو یہ ساتھ ساتھ بہتے ہیں

دراڑ پڑنے لگی ہے ہماری ہستی میں
کوئی خدا کو پکارو، خدا کی بستی میں

سنو کہانی نئی روز اک سنانے کو
مرے فسانے کا کردار اک بنانے کو
اگر جو دیکھ سکو، دیکھ لو، مگر سوچو
یہ جسم بیچتے ہیں ، بھوک بس مٹانے کو

یہی ہو ایک صدا آج، بت پرستی میں
کوئی خدا کو پکارو، خدا کی بستی میں

نہیں ہے شرم انہیں، لاج کے محافظ ہیں
محل بنا کے رہیں آج کے محافظ ہیں
زمیں پہ راج کریں، کاج کے محافظ ہیں
عوام خاک ملے، تاج کے محافظ ہیں

نشے میں دھت یہ پڑے، اور موج مستی میں
کوئی خدا کو پکارو، خدا کی بستی میں

ملی ہے غیر کی خدمت ہمارے حاکم کو
نہیں وطن سے محبت ہمارے حاکم کو
کہاں ہے عیش سے فرصت ہمارے حاکم کو
دلاو ماضی سے عبرت ہمارے حاکم کو

کہاں یہ آن گرے، آج ہم ہیں پستی میں
کوئی خدا کو پکارو، خدا کی بستی میں

 
معمولی سی تبدیلی کی ہے اُستاد محترم


خدا کی بستی میں

نہ باقی عدل رہا جب خدا کی بستی میں
طویل جبر ہوا تب خدا کی بستی میں
خدا ملے گا مجھے کب خدا کی بستی میں
پکارتا ہوں میں یا رب خدا کی بستی میں

عزاب آئے ہیں کیا کیا خدا پرستی میں
کوئی خدا کو پکارو، خدا کی بستی میں

رہو جو عیش میں تُم، یہ اُداس رہتے ہیں
لبوں پہ چپ سی لگی ہے، نظر سے کہتے ہیں
کئی یہ ظلم زمانے کے روز سہتے ہیں
جدھر بہاو ہو یہ ساتھ ساتھ بہتے ہیں

دراڑ پڑنے لگی ہے ہماری ہستی میں
کوئی خدا کو پکارو، خدا کی بستی میں

سنو کہانی نئی روز اک سنانے کو
مرے فسانے کا کردار اک بنانے کو
اگر جو دیکھ سکو، دیکھ لو، مگر سوچو
یہ جسم بیچتے ہیں ، بھوک بس مٹانے کو

یہی ہو ایک صدا آج، بت پرستی میں
کوئی خدا کو پکارو، خدا کی بستی میں

نہیں ہے شرم انہیں، لاج کے محافظ ہیں
محل بنا کے رہیں آج کے محافظ ہیں
زمیں پہ راج کریں، کاج کے محافظ ہیں
عوام خاک ملے، تاج کے محافظ ہیں

نشے میں دھت یہ پڑے، اور موج مستی میں
کوئی خدا کو پکارو، خدا کی بستی میں

ملی ہے غیر کی خدمت ہمارے حاکم کو
نہیں وطن سے محبت ہمارے حاکم کو
کہاں ہے عیش سے فرصت ہمارے حاکم کو
دلاو ماضی سے عبرت ہمارے حاکم کو

کہاں یہ آن گرے، آج ہم ہیں پستی میں
کوئی خدا کو پکارو، خدا کی بستی میں
 

الف عین

لائبریرین
اوہو، میں پرانی شکل پر اصلاح لے کر حاضر ہوا تھا۔ اگر اس کے کچھ جواب طلب نکات اس میں حل ہو چکے ہیں، تو معذرت۔۔
خدا کی بستی میں

نہ باقی عدل رہا جب خدا کی بستی میں
طویل جبر ہوا تب خدا کی بستی میں
خدا ملے گا مجھے کب خدا کی بستی میں
پکارتا ہوں میں یا رب خدا کی بستی میں
// ’نہ باقی عدل رہا‘ زیادہ رواں ہے،
طویل جبر؟؟ سمجھ میں نہیں آیا، ’مہیب‘ تو کہہ سکتے ہو۔ لیکن ’تب‘ کیوں؟
تیسرا مصرع سے کیا مطلب ہے؟

کسے گئے ہیں خدایا تمام دستی میں
کوئی خدا کو پکارو، خدا کی بستی میں
// دستی؟ دکنے محاورے میں دستی رومال کو کہتے ہیں۔ فصیح اردو میں دستی سے مراد ہاتھ کے ذریعے، جیسے دستی خط، اور کیا معنی ہیں، یہ مجھے نہیں معلوم!

رہو جو عیش میں تُم، یہ اُداس رہتے ہیں
لبوں پہ چپ سی لگی ہے، نظر سے کہتے ہیں
کئی ہیں ظلم زمانے کے روز سہتے ہیں
جدھر بہاو ہو یہ ساتھ ساتھ بہتے ہیں
//کون؟ اس کا کچھ ہنٹ تو دو!!

دراڑ پڑنے لگی ہے ہماری ہستی میں
کوئی خدا کو پکارو، خدا کی بستی میں

سنو کہانی نئی روز اک سنانے کو
مرے فسانے کا کردار اک بنانے کو
اگر جو دیکھ سکو، دیکھ لو، مگر سوچو
یہ جسم بیچتے ہیں ، بھوک بس مٹانے کو

یہی ہو ایک صدا آج، بت پرستی میں
کوئی خدا کو پکارو، خدا کی بستی میں
// یہ مکمل بند سمجھ میں نہیں آ سکا۔

نہیں ہے شرم انہیں، لاج کے محافظ ہیں
محل بنا کے رہیں آج کے محافظ ہیں
زمیں پہ راج کریں، کاج کے محافظ ہیں
عوام خاک ملے، تاج کے محافظ ہیں
//شرم جس کو مگر نہیں آتی، وہ لاج کا محافظ کیسے ہو سکتا ہے؟
کاج کے محافظ بے معنی ہے۔
عوام خاک ملَے یا خاک میں مِلے؟

نشے میں دھت یہ پڑے، اور موج مستی میں
کوئی خدا کو پکارو، خدا کی بستی میں

ملی ہے غیر کی خدمت ہمارے حاکم کو
نہیں وطن سے محبت ہمارے حاکم کو
کہاں ہے عیش سے فرصت ہمارے حاکم کو
دلاو ماضی سے عبرت ہمارے حاکم کو

کہاں یہ آن گرے، آج ہم ہیں پستی میں
کوئی خدا کو پکارو، خدا کی بستی میں
//یہ بند معنی خیز ہے اور درست ہے۔
 
اُستاد محترم کوشش کرتا ہوں کہ تفصیل بیان کر سکوں جو لکھا ہے اُس کی


نہ باقی عدل رہا جب خدا کی بستی میں
طویل جبر ہوا تب خدا کی بستی میں
خدا ملے گا مجھے کب خدا کی بستی میں
پکارتا ہوں میں یا رب خدا کی بستی میں
// ’نہ باقی عدل رہا‘ زیادہ رواں ہے،
طویل جبر؟؟ سمجھ میں نہیں آیا، ’مہیب‘ تو کہہ سکتے ہو۔ لیکن ’تب‘ کیوں؟
تیسرا مصرع سے کیا مطلب ہے؟
کہنا یہ ہے کہ جس جگہ عدل نہیں رہتا وہاں جبر کی حکومت قائم ہو جاتی اور وہ بھی طویل عرصے کے لئے، تیسرے مصرع سے یہ مراد ہے کہ خدا کی بستی کا والی کہاں ہے جبکہ میں اُسے پکارتا پھرتا ہوں



کسے گئے ہیں خدایا تمام دستی میں
کوئی خدا کو پکارو، خدا کی بستی میں
// دستی؟ دکنے محاورے میں دستی رومال کو کہتے ہیں۔ فصیح اردو میں دستی سے مراد ہاتھ کے ذریعے، جیسے دستی خط، اور کیا معنی ہیں، یہ مجھے نہیں معلوم!
جی میں مصرع تبدیل کئے دیتا ہوں
ستم سہار رہے ہیں، خدا پرستی میں
کوئی خدا کو پکارو، خدا کی بستی میں


رہو جو عیش میں تُم، یہ اُداس رہتے ہیں
لبوں پہ چپ سی لگی ہے، نظر سے کہتے ہیں
کئی ہیں ظلم زمانے کے روز سہتے ہیں
جدھر بہاو ہو یہ ساتھ ساتھ بہتے ہیں
//کون؟ اس کا کچھ ہنٹ تو دو!!
جی بہتر، اگر یوں کہوں تو؟
رہو جو عیش میں تُم، یہ اُداس رہتے ہیں
لبوں پہ چپ سی لگی ہے، نظر سے کہتے ہیں
کئی یہ ظلم زمانے کے روز سہتے ہیں
جدھر بہاو ہو یہ سب عوام بہتے ہیں


سنو کہانی نئی روز اک سنانے کو
مرے فسانے کا کردار اک بنانے کو
اگر جو دیکھ سکو، دیکھ لو، مگر سوچو
یہ جسم بیچتے ہیں ، بھوک بس مٹانے کو

یہی ہو ایک صدا آج، بت پرستی میں
کوئی خدا کو پکارو، خدا کی بستی میں
// یہ مکمل بند سمجھ میں نہیں آ سکا۔
جی یہاں یہ کہا ہے کہ ہمارے ارد گرد پھیلی کہانیاں دیکھیے کہ یہ لوگ عوام جن کا زکر ہم ایسے کرتے جیسے کسی فسانوی کردار کی بات ہو، جبکہ وہ لوگ ایک لقمہ کے لئے جسم فروشی تک کرتے ہیں

نہیں ہے شرم انہیں، لاج کے محافظ ہیں
محل بنا کے رہیں آج کے محافظ ہیں
زمیں پہ راج کریں، کاج کے محافظ ہیں
عوام خاک ملے، تاج کے محافظ ہیں
//شرم جس کو مگر نہیں آتی، وہ لاج کا محافظ کیسے ہو سکتا ہے؟
کاج کے محافظ بے معنی ہے۔
عوام خاک ملَے یا خاک میں مِلے؟
نشے میں دھت یہ پڑے، اور موج مستی میں
کوئی خدا کو پکارو، خدا کی بستی میں
جی یہی تو المیہ بیان کیا ہے کہ بے شرم لوگ ہم نے عوام کی جان و مال اور چادر اور چار دیواری کے تحفظ کے لئے رکھے ہوئے ہیں، عوام خاک میں مل جائے یہ بس تاج کی حفاظت کرتے ہیں


کچھ تبدیلیاں کی ہیں جناب ، اب ملاحظہ کیجیے


خدا کی بستی میں

نہ باقی عدل رہا جب خدا کی بستی میں
طویل جبر ہوا تب خدا کی بستی میں
خدا ملے گا مجھے کب خدا کی بستی میں
پکارتا ہوں میں یا رب خدا کی بستی میں

ستم سہار رہے ہیں، خدا پرستی میں
کوئی خدا کو پکارو، خدا کی بستی میں

رہو جو عیش میں تُم، یہ اُداس رہتے ہیں
لبوں پہ چپ سی لگی ہے، نظر سے کہتے ہیں
کئی یہ ظلم زمانے کے روز سہتے ہیں
جدھر بہاو ہو یہ سب عوام بہتے ہیں

دراڑ پڑنے لگی ہے ہماری ہستی میں
کوئی خدا کو پکارو، خدا کی بستی میں

سنو کہانی نئی روز اک سنانے کو
مرے فسانے کا کردار اک بنانے کو
اگر جو دیکھ سکو، دیکھ لو، مگر سوچو
یہ جسم بیچتے ہیں ، بھوک بس مٹانے کو

یہی ہو ایک صدا آج، بت پرستی میں
کوئی خدا کو پکارو، خدا کی بستی میں

نہیں ہے شرم انہیں، لاج کے محافظ ہیں
محل بنا کے رہیں آج کے محافظ ہیں
زمیں پہ راج کریں، کاج کے محافظ ہیں
عوام خاک ملے، تاج کے محافظ ہیں

نشے میں دھت یہ پڑے، اور موج مستی میں
کوئی خدا کو پکارو، خدا کی بستی میں

ملی ہے غیر کی خدمت ہمارے حاکم کو
نہیں وطن سے محبت ہمارے حاکم کو
کہاں ہے عیش سے فرصت ہمارے حاکم کو
دلاو ماضی سے عبرت ہمارے حاکم کو

کہاں یہ آن گرے، آج ہم ہیں پستی میں
کوئی خدا کو پکارو، خدا کی بستی میں

 
Top