ایک غزل اصلاح کے لئے،'' وہ ایسے ہجر میں رو رو دہائی دیتی ہے''

وہ ایسے ہجر میں رو رو دہائی دیتی ہے
خرد جنون کے صدقے دکھائی دیتی ہے

گزر گیا ہے زمانہ مگر تعجب ہے
صدا وہیں ہے جو گزرو سنائی دیتی ہے

زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو
خدا ملے نہ ملے، پر رسائی دیتی ہے

بخل ہے عیب، بری ہے فضول خرچی بھی
تونگروں کو بھی دیکھا گدائی دیتی ہے

بری نہیں ہے، وہ لگتی ہے، پر بری اظہر
یہ موت حق ہے، الم سے رہائی دیتی ہے
 
وہ ایسے ہجر میں رو رو دہائی دیتی ہے
خرد جنون کے صدقے دکھائی دیتی ہے

گزر گیا ہے زمانہ مگر تعجب ہے
صدا وہیں ہے جو گزرو سنائی دیتی ہے

قدم رکیں نہ کبھی , مشکلیں تو آتی ہیں
لگن ہو سچی تو منزل سجھائ دیتی ہے

خیال و خواب پہ پہرے بٹھا نہیں سکتا
کہ میری سوچ ہی تجھ تک رسائ دیتی ہے

بری نہیں ہے، وہ لگتی ہے، پر بری اظہر
یہ موت حق ہے، الم سے رہائی دیتی ہے​
 

الف عین

لائبریرین
وہ ایسے ہجر میں رو رو دہائی دیتی ہے
خرد جنون کے صدقے دکھائی دیتی ہے
//شعر واضح نہیں

گزر گیا ہے زمانہ مگر تعجب ہے
صدا وہیں ہے جو گزرو سنائی دیتی ہے
//درست۔

زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو
خدا ملے نہ ملے، پر رسائی دیتی ہے
//پہلا مصرع واوین میں ہونا ضروری ہے۔ دوسرا مصرع سمجھ میں نہیں آیا۔

بخل ہے عیب، بری ہے فضول خرچی بھی
تونگروں کو بھی دیکھا گدائی دیتی ہے
//خ پر جزم ہے۔ اس کو ترتیب بدل کر درست کیا جا سکتا ہے
ہے بخل عیب۔۔۔۔۔
لیکن دوسرا مصرع واضح نہین، کیا گدائی دیتی ہے۔۔ بخل یا اصراف۔ ویسے بخل مذکر ہے۔

بری نہیں ہے، وہ لگتی ہے، پر بری اظہر
یہ موت حق ہے، الم سے رہائی دیتی ہے
//الم سے رہائی دینا تو اچھا عمل ہے، پھر بری کیوں لگتی ہے موت ؟ واضح نہیں۔
 
Top