نتائج تلاش

  1. م

    ہک پنجابی گیت لکنڑ دہ کوشش کیتی ہے سنگیو،'' اظہرے سچا پیار کریں''

    اظہرے سچا پیار کریں پیار نوں پہلے، رکھیں دل وچ ایویں نہ اظہار کریں اظہرے سچا پیار کریں پیار ہے سچا، باقی سودا جھوٹا نہ بے کار کریں اظہرے سچا پیار کریں جیبوں نکلے ہاں لکھ واری دل تُوں نہ انکار کریں اظہرے سچا پیار کریں اکھیاں لاوِیں سوچ کے لاوِیں ایوِیں نہ توں چار کریں اظہرے سچا پیار کریں...
  2. م

    ایک نظم،'' لے کے یادیں ساون آیا'' از محمد اظہر

    ساون لے کے یادیں ساون آیا اپنا ماضی آگے پایا بارش نے پھر یہ فرمایا کیا ہے کھویا، اور کیا پایا لے کے یادیں ساون آیا بچپن ساتھی رونا گانا ملنا جلنا آنا جانا کھیتوں سے چوری کر کھانا ویسا کچھ بھی پھر نہ بھایا لے کے یادیں ساون آیا کاپی پنسل لکھنا پڑھنا اچھے کاموں آگے بڑھنا ٹیچر غصہ...
  3. م

    ندیا ری ندیا، کچھ بولو نہ از محمد اظہر نذیر

    ندیا ری ندیا، کچھ بولو نہ میں کچھ دیر تنہا رہنا چاہتی تھی، اور شاید ایسا نہیں بھی تھا، کسی نہ کسی کا ساتھ بھی چاہتی تھی، بس مجھے ندی کا خیال آیا اور مین اُسی کی جانب چلی آٴی،، جیسا کہ میں اکثر کیا کرتی۔ سینڈلز گاڑی میں ہی رہنے دیے اور ننگے پاوں ندی کی جانب بڑھی۔ ایک پتھر پر بیٹھ کر جونہی...
  4. م

    ایک تازہ غزل،'' ذرا دل کو کشادہ کر لیا جائے'' از محمد اظہر

    ذرا دل کو کشادہ کر لیا جائے محبت کا ارادہ کر لیا جائے پڑا بیکار برسوں سے ہے دل اپنا کہو تو استفادہ کر لیا جائے ارے کم ہو، تو مے میں کیا مزہ ساقی اسے کچھ اور زیادہ کر لیا جائے نبھانا ہو گیا ممکن، نبھا لیں گے ابھی ایسے ہی وعدہ کر لیا جائے عمل پیہم بھی ہو، کافی نہیں لیکن یقیں کو...
  5. م

    ایک غزل،'' وہ ستمگر مری بانہوں میں سمٹنے آیا'' از: محمد اظہر نذیر

    وہ ستمگر مری بانہوں میں سمٹنے آیا مجھ کو تڑپا ہی دیا، ایسے، لپٹنے آیا میں نے تنہاٗی کی برسوں سے بچھاٗی تھی بساط وہ اُسے پل میں لگے ہاتھ ، اُلٹنے آیا میں نے دیوار بناٗی تھی مرے چاروں طرف میری دیوار کی پرتوں کو اُچٹنے آیا میں کہ آتش میں محبت کی ہوا خاکستر اُس کو پرواہ بھی نہ تھی،...
  6. م

    برائے اصلاح : ایک نظم ،'' پہلی ملاقات'': از: محمد اظہر نذیر ؔ

    پہلی ملاقات عمر کی بے شمار گلیوں میں کچھ تو روشن تھے راستے لیکن تنگ تاریک موڑ بھی آٴے یاد بس وہ مقام ہے مجھ کو ہاں جہاں بے سبب رکا تھا میں پھر ملاقات ہوگئی تم سے
  7. م

    ایک نظم،'' مجھے مت جلانا''

    مجھے مت جلانا مجھے مت جلانا، میں نازوں پلی ہوں خدا نے بناٗی تھی، اچھی بھلی ہوں مجھے مت جلانا، میں نازوں پلی ہوں مجھے چھاوں میں آنچ لگتی تھی لیکن تُمھارے لیے دھوپ تک میں جلی ہوں مجھے مت جلانا، میں نازوں پلی ہوں میں غنچہ دہن ہوں، میں کومل بدن ہوں میں رنگین تتلی، میں نازک کلی ہوں مجھے مت...
  8. م

    پنجابی سنگیو ہک گیت لکھنڑ دی کوشش کیتی ہے، ذرا ویکھو تاں

    مینوں پیلی پیلی وار لگا ہویا اے پیار تھوڑا کہ دتا تھوڑا کہنڑا بھل گئی مینوں پیلی پیلی وار لگا ہویا اے پیار چنری سجائی میں تاں اکھ وی بچائی میں تاں کھڑے ہو کے تکیا تے بینڑا بھل گئی تھوڑا کہ دتا تھوڑا کہنڑا بھل گئی مینوں پیلی پیلی وار لگا ہویا اے پیار بانہواں ڈولیاں دے پہرے اودے وال سنہرے اونے...
  9. م

    مختصر مختصر ایک نظم ۔'' دستک''

    دستک ایک مانوس سی دستک جو سناٴی دی تھی وہ ہوا یوں کہ تری یاد تھی دروازے پر کوٴی مہماں تو نہیں تُم تو یہ دستک دینا چھوڑ بھی دو نا دبے پاوں چلی آیا کرو
  10. م

    ایک تازہ غزل اصلاح کیلیے

    نا میں شہزادہ کہیں کا، نا پری میرے لیے فرش ہو بس خاک کا، اور اک دری میرے لیے ہاں بنا سکتا نہیں ماٹی کے پتلے میں تو کیا؟ آدمی تُو خود بنا، کوزہ گری، میرے لیے دل لگانے سے ملا نہ آج تک کچھ بھی مجھے دل لگی سے باز آنا، بہتری میرے لیے مشکلیں آسان کرتا ہے سبھی وہ چارہ گر بھول کیوں...
  11. م

    ” کیا نظارا تھا مجسم تھی حیا، دیکھ آیا ” ایک کاوش اصلاح کیلیے

    کیا نظارا تھا مجسم تھی حیا، دیکھ آیا اُس کی آنکھوں میں جو اُترا ہوں، وفا دیکھ آیا ہوش بھی گُم ہوئے، دیوانہ بنا پھرتا ہوں اک نظر میں ہی خدا جانے میں کیا دیکھ آیا زلف پھیلا کے کہا اُس نے کہ آو جاناں پھر برستی ہوئی چاہت کی گھٹا دیکھ آیا گنگ رہتا تھا، ملاقات ہوئی تھی پل کی کیا تھا اُس بت میں...
  12. م

    چرخا کتاں روواں

    السلام و علیکم، پنجابی وچ اک نظم لکھنڑ دی کوشش کیتی اے، امید کرنا واں کہ پسند کرو گے، جو پنجابی نہیں سمجھتے اُن کے لیے اُردو ترجمہ منظوم کوشش کی ہے ہسدے وسدے رہو جی اظہر م چرخا کتاں روواں جاگاں کیویں سوواں ماہی وچھڑیا چیخاں کیہڑے پاسے ہوواں چرخا کتاں روواں دوجی کولوں سوہنڑا سوچاں کیکر...
  13. م

    ایک غزل موسم بہار کی مناسبت سے، اساتذہ کی توجہ کیلیے

    گل کا ، خوشبو، بہار کا موسم اُس کے رخ پر نکھار کا موسم چال بدلی ہے رت بدلنے سے اب ہے غمزے ہزار کا موسم گیسووں میں گلاب کی کلیاں موتئیے سے سنگھار کا موسم گنگنانے کو جی مچل جائے گیت، غزلوں، ستار کا موسم قربتوں سے جلا نہیں کوئی لمس، چڑھتے بخار کا موسم رات رانی نشہ سا کر ڈالے...
  14. م

    ایک تازہ غزل اصلاح کی غرض سے

    اتنا مشکل بھی نہیں اور یہ آساں بھی نہیں باعث درد نہیں، درد کا درماں بھی نہیں میں ادھر کا بھی نہیں، اور اُدھر کا نہ رہا تجھ سے راضی بھی نہیں اور میں نالاں بھی نہیں تُو نہیں ہے، تو بھی احساس ترا رہتا ہے وصل لگتا بھی نہیں اور یہ ہجراں بھی نہیں کیا مصیبت ہے، ہوا جب سے محبت کا اسیر اب تو...
  15. م

    ایک تازہ غزل اساتذہ کی رہ نمائی کی منتظر

    میں جو لکھتا ہوں، مرے حرف صدا دیتے ہیں فرش والے نہ سہی، عرش ھلا دیتے ہیں پوچھتے کیا ہو، بنے پیار میں کیوں ہیں پاگل چاہتا کون ہے، حالات بنا دیتے ہیں یوں تو کرتا ہی رہا ہوں میں جفا کا ماتم کیوں وفا کر کے بھی کچھ لوگ رلا دیتے ہیں شرم آتی بھی نہیں، نام کے ہمدردوں کو آنکھ میں ڈال کے جب...
  16. م

    ایک غزل برائے اصلاح اور ایک سوال رہ نمائی کے لئے

    میں بھی چپ تھا عکس بھی رویا نہیں چپ رہ گیا آئنہ بھیگا تھا شائد، بات ساری کہ گیا وار گو مجھ پر ہوا تھا پر لیا نہ کچھ اثر آئنہ بکھرا پڑا تھا، عکس خود پر سہ گیا برہنہ تھا عکس بھی، پر شرم آنکھوں میں نہ تھی آئنہ کی آنکھ کا جیسے کہ پانی بہ گیا چاند جی صورت لگا کرتا تھا جس کا عکس بھی آئنہ اندھا ہوا...
  17. م

    ماں بیٹا، اور چاند ﴿ایک مختصر مکالمہ )

    کہا اک دن یہ اماں نے، کہ دلہن چاند سی لاوں جگر کے لخت اے میرے، ترا سہرا سجا پاوں کہا میں نے کہ دلہن چاند سی چندا کو بر مانے مگر میں عام سا لڑکا، لگوں گا دیکھ شرمانے سُنو ماں عام سی لڑکی ، برابر میں جو آئی ہے نہیں وہ چاند سی لیکن، محبت آزمائی ہے مجھے وہ چاند جیسی روشنی تو دے نہ پائے گی مگر...
  18. م

    ایک کاوش برائے اصلاح،'' سائباں تھے تو مرے سر پہ دکھائی دیتے''

    سائباں تھے تو مرے سر پہ دکھائی دیتے دھوپ سے چھاوں تلک مجھ کو رسائی دیتے درد ایسا بھی نہیں تھا کہ نہ ہوتا ذائل درد کا پوچھ ہی لیتے نہ دوائی دیتے آبلے وصل کی راہوں کے مزہ دیتے ہیں تب بھی کیا تھا جو مجھے آبلہ پاٗی دیتے میں نے مانگی بھی نہیں اور نہ چاہت تھی کبھی قید رکھتے تو ہی خوش تھا، نہ...
  19. م

    ایک نظم اصلاح کی غرض سے پیش ہے،'' گُل اور کلی'' اساتذہ توجہ فرماءیں

    کلی اور گُل سُنو گل باز آ جاؤ کلی کو نوچنا اچھا نہیں ہے کلی ہے پیرہن تیرا تُو اُس کا اُسے نوچے گا تُو جو برہنہ کر دے گا ظالم سمجھ کہ برہنہ خود بھی رہے گا محمد اظہر نذیر
  20. م

    ایک غزل ،'' چاند تھا ہمسفر ستارے بھی'' اصلاح کی غرض سے پیش ہے، اساتذہ توجہ فرماءیں

    چاند تھا ہمسفر ستارے بھی منزلوں کے ملے اشارے بھی دوستی، پیارتھا مقدر میں راستوں میں ملے سہارے بھی بھول جاو کرو محبت جو پھر منافع، سبھی خسارے بھی سب ہی دنیا میں چھوڑ جانا ہے گھر، منارے، محل، چوبارے بھی دل برا ہو تو زہر لگتے ہیں جھیل، وادی، حسیں نظارے بھی موت ہتھیار ڈالنے کو کہے زندگی...
Top