ایک تازہ غزل،'' ذرا دل کو کشادہ کر لیا جائے'' از محمد اظہر

ذرا دل کو کشادہ کر لیا جائے
محبت کا ارادہ کر لیا جائے
پڑا بیکار برسوں سے ہے دل اپنا
کہو تو استفادہ کر لیا جائے
ارے کم ہو، تو مے میں کیا مزہ ساقی
اسے کچھ اور زیادہ کر لیا جائے
نبھانا ہو گیا ممکن، نبھا لیں گے
ابھی ایسے ہی وعدہ کر لیا جائے
عمل پیہم بھی ہو، کافی نہیں لیکن
یقیں کو ایستادہ کر لیا جائے
کرو ہمت تو مشکل کچھ نہیں اظہر
مصمم بس ارادہ کر لیا جائے
 

ایم اے راجا

محفلین
محترم راجا بھائی آپ نے اظہر بھائی کی اس غزل کو غلطی سے پسند کی بجائے ناپسند کردیا ہے ۔۔۔ برائے مہربانی اس کی اصلاح کردیں۔۔ شکریہ۔۔۔!
توجہ دلانے کے لیئے شکر گذار ہوں۔
اظہر بھائی معاف کیجے گا غلطی سے ایسا عمل سر زد ہو گیا
 

الف عین

لائبریرین
کاپی پیسٹ کر رہا ہوں۔ ویسے مطلع سے کیا مراد ہے؟ کیا محبت کرنے کے لئے دل کشادہ ہونا ضروری ہے؟
 

الف عین

لائبریرین
ذرا دل کو کشادہ کر لیا جائے
محبت کا ارادہ کر لیا جائے
// چلو تمہاری وضاحت مان لی۔

پڑا بیکار برسوں سے ہے دل اپنا
کہو تو استفادہ کر لیا جائے
// پہلے مصرع میں روانی کی کمی ہے۔ کچھ بہتری کا سوچو۔ میں بھی سوچتا ہوں۔

ارے کم ہو، تو مے میں کیا مزہ ساقی
اسے کچھ اور زیادہ کر لیا جائے
’ارے‘ بھرتی کا ہے، اور ’زیادہ‘ کا تلفظ غلط استعمال ہوا ہے۔

نبھانا ہو گیا ممکن، نبھا لیں گے
ابھی ایسے ہی وعدہ کر لیا جائے
// نبھانا ہوگا ممکن تو نبھا لیں گے
بہتر لگ رہا ہے نا؟

عمل پیہم بھی ہو، کافی نہیں لیکن
یقیں کو ایستادہ کر لیا جائے
یقین کا ایستادہ کرنا؟ یہ محاورہ تو نہیں ہے۔

کرو ہمت تو مشکل کچھ نہیں اظہر
مصمم بس ارادہ کر لیا جائے
//درست
 
محبت کا ارادہ کر لیا جائے
ذرا دل کو کشادہ کر لیا جائے
پڑا برسوں سے ہے بے کار دل اپنا
کہو تو استفادہ کر لیا جائے
اگر کم ہو، تو مے میں کیا مزہ ساقی
اسے کچھ اور زیادہ کر لیا جائے
نبھانا ہوگا ممکن تو نبھا لیں گے
ابھی رسماً ہی وعدہ کر لیا جائے
محبت کا ارادہ بھول سکتا ہے
ارادے کا اعادہ کر لیا جائے
کرو ہمت تو مشکل کچھ نہیں اظہر
مصمم بس ارادہ کر لیا جائے
 
Top