ماں بیٹا، اور چاند ﴿ایک مختصر مکالمہ )



کہا اک دن یہ اماں نے، کہ دلہن چاند سی لاوں
جگر کے لخت اے میرے، ترا سہرا سجا پاوں

کہا میں نے کہ دلہن چاند سی چندا کو بر مانے
مگر میں عام سا لڑکا، لگوں گا دیکھ شرمانے

سُنو ماں عام سی لڑکی ، برابر میں جو آئی ہے
نہیں وہ چاند سی لیکن، محبت آزمائی ہے

مجھے وہ چاند جیسی روشنی تو دے نہ پائے گی
مگر روٹی یہ سوکھی ساتھ میرے بیٹھ کھائے گی

اگر سمجھو مناسب ماں اُسے دلہن بنا لاو
سنہری چاند سی پوشاک میں اُس کو سجا لاو
 

الف عین

لائبریرین
پہلی بات تو یہ کہ عنوان میں ’چاند‘ کیوں؟

// اس نظم میں وہی بات ہے، اوبڑ کھابڑ لہجہ۔
کہا اک دن یہ اماں نے، کہ دلہن چاند سی لاوں
جگر کے لخت اے میرے، ترا سہرا سجا پاوں
دوسرا مصرع محلِ نظر ہے، ‘اے میرے‘ اور ’پاؤں‘ کی وجہ سے۔کیا چیز مانع ہے جو ماں سہرا سجانا چاہتی ہے لیکن سجا نہیں پاتی؟
مرے بیٹے کسی دن گھر میں اک دلہن سجی دیکھوں
کیا جا سکتا ہے

کہا میں نے کہ دلہن چاند سی چندا کو بر مانے
مگر میں عام سا لڑکا، لگوں گا دیکھ شرمانے
//پہلا مصرع؟ دوسرے میں بھی ’لگوں گا دیکھ شرمانے‘ مشکل کر رہا ہے۔ اس کا کچھ سوچو۔ یہ تمہارے پرانے اوبڑ کھابڑ لہجے کی نظم ہے۔

سُنو ماں عام سی لڑکی ، برابر میں جو آئی ہے
نہیں وہ چاند سی لیکن، محبت آزمائی ہے
’ محبت آزمائی‘ کیا لفظ ہے؟

مجھے وہ چاند جیسی روشنی تو دے نہ پائے گی
مگر روٹی یہ سوکھی ساتھ میرے بیٹھ کھائے گی
//دوسرا مصرع رواں نہیں۔
مگر یہ سوکھی روٹی بھی خوشی کے ساتھ کھائے گی
اس کو یوں کہیں تو۔۔۔
یہ روکھا سوکھا بھی ہنس کر مرے ہمراہ کھائے گی
یا
یہ سوکھی روٹی بھی ہنس کر ہمارے ساتھ کھائے گی

اگر سمجھو مناسب ماں اُسے دلہن بنا لاو
سنہری چاند سی پوشاک میں اُس کو سجا لاو
// پہلے مصرع میں مفہوم کے اعتبار سے ’تو‘ کی کمی ہے۔
اگر سمجھو مناسب تو اسے دلہن بنا لاؤ
لیکن دوسرے مصرع میں چاند سی سنہری پوشاک ہوتی ہے؟ ویسے بھی دلہنیں سرخ جوڑا پہنتی ہیں ہندوستانی پاکستانی۔
اسی کو سرخ جوڑے اور پھولوں میں سجا لاؤ
بہتر رہے گا۔
 
Top