ایک غزل،'' وہ ستمگر مری بانہوں میں سمٹنے آیا'' از: محمد اظہر نذیر

وہ ستمگر مری بانہوں میں سمٹنے آیا
مجھ کو تڑپا ہی دیا، ایسے، لپٹنے آیا
میں نے تنہاٗی کی برسوں سے بچھاٗی تھی بساط
وہ اُسے پل میں لگے ہاتھ ، اُلٹنے آیا
میں نے دیوار بناٗی تھی مرے چاروں طرف
میری دیوار کی پرتوں کو اُچٹنے آیا
میں کہ آتش میں محبت کی ہوا خاکستر
اُس کو پرواہ بھی نہ تھی، راکھ سے اٹنے آیا
اُس کی قربت کا نشہ ایسا تھا پھسلا میں بھی
وہ بھی سرشار تھا شائد کہ رپٹنے آیا
دور رہتے ہو کہاں جان سے پیارے اظہر
وہ کہ جزبات کی شدت سے تھا پھٹنے آیا
 

الف عین

لائبریرین
تم کئی بار خود اصلاحی کر لو تو میں اترتا ہوں میدان میں۔
یہاں اچٹنے کا کیا محل ہے
میری دیوار کی پرتوں کو اُچٹنے آیا
یہاںصوتی طور پر کریہہ ہے​
وہ کہ جزبات کی شدت سے تھا پھٹنے آیا
 
تم کئی بار خود اصلاحی کر لو تو میں اترتا ہوں میدان میں۔
یہاں اچٹنے کا کیا محل ہے
میری دیوار کی پرتوں کو اُچٹنے آیا
یہاںصوتی طور پر کریہہ ہے​
وہ کہ جزبات کی شدت سے تھا پھٹنے آیا
محترم اُستاد،
اُچٹنا گویا کسی چیز کو اکھیڑنا، دیوار کی پرتوں کو
 

الف عین

لائبریرین
یہ معنی میرے لئے نئے ہیں۔ اب تک تو محض اچٹتی ہوئی نظریں پڑھا تھا۔ مطلب محض چھو کر گزر جانا۔
 
کچھ تبدیلیاں



وہ ستمگر مری بانہوں میں سمٹنے آیا

مجھ کو تڑپا ہی دیا، ایسے، لپٹنے آیا


میں نے تنہاٗی کی برسوں سے بچھاٗی تھی بساط

وہ اُسے پل میں لگے ہاتھ ، اُلٹنے آیا


میں نے دیوار بناٗی تھی مرے چاروں طرف

میری مضبوط حدوں کو وہ اُچٹنے آیا


اُس کی قربت کا نشہ ایسا تھا پھسلا میں بھی

وہ بھی مستی میں تھا سرشار رپٹنے آیا


پھر محبت کا وہ اظہار مکرر اُس کا

کیا وہ الفت کی ہی گردان تھا رٹنے آیا


مجھ کو آتش میں محبت کی جلا کر اظہر

خود وہ پھر گرد محبت میں ہی اٹنے آیا
 
اُستاد محترم معزرت قبول کیجیے مجھے لگتا ہے کہ اُچٹنا جن معنی میں استعمال کیا ہے وہ ٹھیک نہیں، کچھ تبدیلیاں اور کرتا ہوں

وہ ستمگر مری بانہوں میں سمٹنے آیا
مجھ کو تڑپا ہی دیا، ایسے، لپٹنے آیا
ابر تھا، رعد نہ طوفاں، نہ کہیں تھی ہلچل
جانے پھر کیا تھا، کہ یکدم ہی چمٹنے آیا
میں نے تنہاٗی کی برسوں سے بچھاٗی تھی بساط
وہ اُسے پل میں لگے ہاتھ ، اُلٹنے آیا
اُس کی قربت کا نشہ ایسا تھا پھسلا میں بھی
وہ بھی مستی میں تھا سرشار رپٹنے آیا
مجھ کو آتش میں محبت کی جلایا اُس نے
اور پھر راکھ میں میری ہی وہ اٹنے آیا
کچھ ترے نام پہ لکھتا ہوں مرے یار وجود
دیکھ اظہرتو ذرا آج میں بٹنے آیا
 
اُستاد محترم معزرت قبول کیجیے مجھے لگتا ہے کہ اُچٹنا جن معنی میں استعمال کیا ہے وہ ٹھیک نہیں، کچھ تبدیلیاں اور کرتا ہوں

وہ ستمگر مری بانہوں میں سمٹنے آیا
مجھ کو تڑپا ہی دیا، ایسے، لپٹنے آیا
ابر تھا، رعد نہ طوفاں، نہ کہیں تھی ہلچل
جانے پھر کیا تھا، کہ یکدم ہی چمٹنے آیا
میں نے تنہائی کی برسوں سے بچھائی تھی بساط
وہ اُسے پل میں لگے ہاتھ ، اُلٹنے آیا
اُس کی قربت کا نشہ ایسا تھا پھسلا میں بھی
وہ بھی مستی میں تھا سرشار رپٹنے آیا
مجھ کو آتش میں محبت کی جلایا اُس نے
اور پھر راکھ میں میری ہی وہ اٹنے آیا
کچھ ترے نام پہ لکھتا ہوں مرے یار وجود
دیکھ اظہرتو ذرا آج میں بٹنے آیا
 
وہ ستمگر مری بانہوں میں سمٹنے آیا
مجھ کو تڑپا ہی دیا، ایسے، لپٹنے آیا
ابر تھا، رعد نہ طوفاں، نہ کہیں تھی ہلچل
جانے پھر کیا تھا، کہ یکدم ہی چمٹنے آیا
میں نے تنہاٗی کی برسوں سے بچھاٗی تھی بساط
وہ اُسے پل میں لگے ہاتھ ، اُلٹنے آیا
اُس کی قربت کا نشہ ایسا تھا پھسلا میں بھی
وہ بھی مستی میں تھا سرشار رپٹنے آیا
میری الفت میں گرفتار گیا روٹھ کے جب
چل سکا چار قدم ہی کے پلٹنے آیا
تجھ میں کیا ہے وہ بھلی بات کی دشمن اظہر
یار بن کے ہی گیا، جو بھی کپٹنے آیا
 

مغزل

محفلین
آداب اظہر میاں ۔ ایک گزارش ہے کہ مراسلت یا کلام کے لیے محفل کا خودکار ( ڈیفالٹ) رسم الخظ (فونٹ) ہی رہنے دیا کیجے ۔۔
نسخ اور ایشیاء ٹائپ کے استعمال سے مراسلت کا حسن ماند پڑ جاتا ہے ۔ امید ہے ناگوار نہ گزرے گا اور اس دوستانہ مشورے پر عمل کیجے گا۔
آپ کا مخلص
م۔م۔مغل
 
آداب عرض ہے جناب مغل صاحب،
یہ جب سے نیا سافٹ ویر فورم پر آیا ہے ، فونٹ اور ترتیب بڑی مشکل سے ہوتی ہے۔ اگر دو اشعار کے بیچ فاصلہ دیں تو ارسال کے بعد فاصلہ غائب ہو جاتا ہے، پھر بھی کوشش ہو گی انشا اللہ
 

مغزل

محفلین
آداب عرض ہے جناب مغل صاحب،
یہ جب سے نیا سافٹ ویر فورم پر آیا ہے ، فونٹ اور ترتیب بڑی مشکل سے ہوتی ہے۔ اگر دو اشعار کے بیچ فاصلہ دیں تو ارسال کے بعد فاصلہ غائب ہو جاتا ہے، پھر بھی کوشش ہو گی انشا اللہ
آپ کے پاس جمیل نوری نستعلیق انسٹال ہے ؟؟
تو پھر آپ کے فونٹ اپلائی نہ کرکے بہ آسانی محفل کے ڈیفالٹ فونٹ میں مراسلت کرسکتے ہیں ۔
الگ سے کوئی فونٹ اپلائی کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ فاصلے والی بات میں نہیں سمجھ پایا ، کیوں کہ ہم سب پوسٹ نارملی ہی کرتے ہیں ۔۔ اور فاصلے کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔
 
وہ ستمگر مری بانہوں میں سمٹنے آیا
مجھ کو تڑپا کے گیا، ایسے لپٹنے آیا
ابر تھا، رعد نہ طوفاں، نہ کہیں تھی ہلچل
جانے پھر کیا تھا کہ یکدم ہی چمٹنے آیا
میں نے تنہائی کی برسوں سے بچھائی تھی بساط
وہ اُسے پل میں لگے ہاتھ اُلٹنے آیا
اُس کی قربت کا نشہ ایسا تھا پھسلا میں بھی
وہ بھی مستی میں تھا سرشار، رپٹنے آیا
یوں لگا یار ہے، یاری کو نبھانا چاہے
اور لگا یوں بھی کہ، دشمن ہے، نبٹنے آیا
کر دیا وصل کی لذت سے شناسا اظہر
اور بساط شب ہجراں کو پلٹنے آیا
 

الف عین

لائبریرین
دوبارہ کمپوز کی ہے کیا اظہر۔ اس میں تم نے درست ’ئ‘ استعمال کی ہے۔ پہلے بلکہ اکثر اوپر والی ہمزہ کرتے تھے۔ ’ئے‘ کے لئے بھی ’ےْ‘۔ یہاں شاید پتہ نہ لگے لیکن میرا ورڈ فوراً غلطی کی نشان دہی کر دیتا ہے۔
 
Top