ایک غزل موسم بہار کی مناسبت سے، اساتذہ کی توجہ کیلیے

گل کا ، خوشبو، بہار کا موسم
اُس کے رخ پر نکھار کا موسم
چال بدلی ہے رت بدلنے سے
اب ہے غمزے ہزار کا موسم
گیسووں میں گلاب کی کلیاں
موتئیے سے سنگھار کا موسم
گنگنانے کو جی مچل جائے
گیت، غزلوں، ستار کا موسم
قربتوں سے جلا نہیں کوئی
لمس، چڑھتے بخار کا موسم
رات رانی نشہ سا کر ڈالے
مستیوں اور خمار کا موسم
لب سلے ہیں میں شعر کیا لکھوں
آیا اظہر ہے پیار کا موسم
 
کچھ تبدیلیاں
پھول ، خوشبو، بہار کا موسم
اُس کے رخ پر نکھار کا موسم

چال بدلی بہار کی رُت میں
اب ہے غمزے ہزار کا موسم

گیسووں میں گلاب کی کلیاں
موتئیے سے سنگھار کا موسم

گنگنانے کو جی مچل جائے
نے نوازی، ستار کا موسم

قربتیں راکھ کر کہ دم لیں گی
آ گیا ہے بخار کا موسم

یوں مہکتی ہے رات کی رانی
اک نشہ اور خمار کا موسم

لب سلے ہیں میں شعر کیا بولوں
آیا اظہر ہے پیار کا موسم
 

غ۔ن۔غ

محفلین
گنگنانے کو جی مچل جائے
نے نوازی، ستار کا موسم
بہت خوب جناب ۔ ۔ ۔ ۔
حسبِ موسم غزل سے نوازا ہے آپ نے:)
 

الف عین

لائبریرین
پھول ، خوشبو، بہار کا موسم
اُس کے رخ پر نکھار کا موسم
//درست

چال بدلی بہار کی رُت میں
اب ہے غمزے ہزار کا موسم
//یہاں محاورے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اچھی نہیں لگ رہی ہے۔

گیسووں میں گلاب کی کلیاں
موتئیے سے سنگھار کا موسم
//درست

گنگنانے کو جی مچل جائے
نے نوازی، ستار کا موسم
//درست

قربتیں راکھ کر کہ دم لیں گی
آ گیا ہے بخار کا موسم
//بخار کا موسم؟؟؟؟ بات سمجھ میں نہیں آئی!!

یوں مہکتی ہے رات کی رانی
اک نشہ اور خمار کا موسم
// دونوں مصرعوں میں کیا تعلق ہے؟

لب سلے ہیں میں شعر کیا بولوں
آیا اظہر ہے پیار کا موسم
۔۔ شعر بولا جاتا ہے، یہ آج ہی معلوم ہوا۔ دوسرے مصرع کو یوں کر دو تو بہتر ہے
اظہر ۔ آیا ہے پیار کا موسم
 
اُستاد محترم،
چاروں اشعار تبدیل کر دیتا ہوں

پھول ، خوشبو، بہار کا موسم
اُس کے رخ پر نکھار کا موسم
ہوں گے غمزے بھی سینکڑوں لیکن
یہ ہے نخرے ہزار کا موسم
گیسووں میں گلاب کی کلیاں
موتئیے سے سنگھار کا موسم
گنگنانے کو جی مچل جائے
نے نوازی، ستار کا موسم
پھر سے کلیاں سجیں گی جوڑے میں
اُن سے اُٹھتے خمار کا موسم
قربتیں مستیاں جنم دیں گی
پھر ملے گا قرار کا موسم
پھر وہ اظہر لگے گی سینے سے
بازووں کے حصار کا موسم
 
ایک تبدیلی اور


پھول ، خوشبو، بہار کا موسم
اُس کے رخ پر نکھار کا موسم
ہوں گے غمزے بھی سینکڑوں لیکن
یہ ہے نخرے ہزار کا موسم
گیسووں میں گلاب کی کلیاں
موتئیے سے سنگھار کا موسم
گنگنانے کو جی مچل جائے
نے نوازی، ستار کا موسم
پھر سے کلیاں سجیں گی جوڑے میں
زلف ہو گی، خمار کا موسم
قربتیں مستیاں جنم دیں گی
پھر ملے گا قرار کا موسم
پھر وہ اظہر لگے گی سینے سے
بازووں کے حصار کا موسم
 

الف عین

لائبریرین
اب بہتر ہے۔ اگرچہ اکثر مصرعوں میں ’آیا ہے‘ محذوف ہے، لیکن کیونکہ اس ردیف میں اسی کا محل ہے، اس لئے ٹھیک ہے۔ البتہ اسے مسلسل غزل کہا جائے تو ذرا سی تبدیلی سے یہ سقم بھی نہیں رہتا۔
پھول ، خوشبو، بہار کا موسم
اُس کے رخ پر نکھار کا موسم
کو​
آ گیا ہےبہار کا موسم
اُس کے رخ پر نکھار کا موسم
کر دیا جائے تو یہ ’آ گیا‘ تمام اشعار کے لئے کافی کہا جا سکتا ہے۔ ویسے اس مطلع میں per seکوئی سقم نہیں ہے۔​
 
آ گیا ہےبہار کا موسم
اُس کے رخ پر نکھار کا موسم
ہوں گے غمزے بھی سینکڑوں لیکن
یہ ہے نخرے ہزار کا موسم
گیسووں میں گلاب کی کلیاں
موتئیے سے سنگھار کا موسم
گنگنانے کو جی مچل جائے
نے نوازی، ستار کا موسم
پھر سے کلیاں سجیں گی جوڑے میں
زلف ہو گی، خمار کا موسم
قربتیں مستیاں جنم دیں گی
پھر ملے گا قرار کا موسم
پھر وہ اظہر لگے گی سینے سے
بازووں کے حصار کا موسم
 
Top