اب کیا مثال دوں میں تمہارے شباب کی
انسان بن گئی ہے کرن ماہتاب کی
چہرے میں گُھل گیا ہے حسیں چاندنی کا نور
آنکھوں میں ہےچمن کی جواں رات کا سرور
گردن ہے اک جُھکی ہوئی ڈالی گلاب کی
اب کیا مثال دوں میں تمہارے شباب کی
غزل
(وسیم بریلوی)
میں اِس اُمید پہ ڈوبا کہ تو بچا لے گا
اب اس کے بعد میرا امتحان کیا لے گا
یہ ایک میلہ ہے وعدہ کسی سے کیا لے گا
ڈھلے گا دن تو ہر ایک اپنا راستہ لے گا
میں بُجھ گیا تو ہمیشہ کو بُجھ ہی جاؤں گا
کوئی چراغ نہیں ہوں جو پھر جلا لے گا
کلیجہ چاہیئے دشمن سے دشمنی کے لئے
جو بے عمل ہے...
غزل
(نواز دیوبندی)
وہ رُلا کر ہنس نہ پایا دیر تک
جب میں رو کر مُسکرایا دیر تک
بھولنا چاہا کبھی اُس کو اگر
اور بھی وہ یاد آیا دیر تک
خودبخود بےساختہ میں ہنس پڑا
اُس نے اِس درجہ رُلایا دیر تک
بھوکے بچوں کی تسلّی کے لیئے
ماں نے پھر پانی پکایا دیر تک
گُنگُناتا جا رہا تھا ایک فقیر
دھوپ رہتی ہے نہ...
غزل
(طاہر فراز)
ہاتھوں میں کشکول، زباں پر تالا ہے
اپنے جینے کا انداز نیرالا ہے
آہٹ سی محسوس ہوئی ہے آنکھوں کو
شاید کوئی آنسو آنے والا ہے
چاند کو جب سے اُلجھایا ہے شاخوں نے
پیڑ کے نیچے بےترتیب اُجالا ہے
خوشبو نے دستک دی تو احساس ہوا
گھر کے در و دیوار پہ کتنا جالا ہے
غزل
(طاہر فراز - رام پور، ہندوستان)
اتنا بھی کرم اُن کا کوئی کم تو نہیں ہے
غم دے کہ وہ پوچھے ہیں کوئی غم تو نہیں ہے
جنت کا جو نقشہ مجھے دکھلایا گیا تھا
ایسا ہی بےعالم یہ وہ عالم تو نہیں ہے
حالات میرے اِن دِنوں پیچیدہ بہت ہیں
زلفوں میں کہیں تیری کوئی خم تو نہیں ہے
سینے سے ہٹاتا ہی نہیں ہاتھ وہ...
غزل
(طاہر فراز)
آپ ہم سے اگر نہ بولیں گے
اپنی پلکوں کو ہم بھگولیں گے
پہلے اک اک لفظ تولیں گے
پھر کہیں ہم زبان کھولیں گے
جب وہ احساس مسکرائے گا
آئینے سے لپٹ کے رو لیں گے
جب وہ لفظوں کا جال پھینکے گا
لوگ میرے خلاف بولیں گے
دل کے زخموں کی ہم کو فکر نہیں
ہم انہیں آنسوؤں سے دھولیں گے
بات جنت کی...
بہت خوبصورت ہو تم
(طاہر فراز)
بہت خوبصورت ہو تم
کبھی میں جو کہہ دوں محبت ہے تم سے
تو مجھ کو خُدارا غلط مت سمجھنا
کہ میری ضرورت ہو تم
ہے پھولوں کی ڈالی یہ باہیں تمہاری
ہیں خاموش جادو نگاہیں تمہاری
جو کانٹیں ہوں سب اپنے دامن میں رکھ لوں
سجاؤں میں کلیوں سے راہیں تمہاری
نظر سے زمانے کی خود کو بچانا...
غزل
(منظر بھوپالی)
طاقتیں تمہاری ہیں اور خدا ہمارا ہے
عکس پر نہ اِتراؤ، آئینہ ہمارا ہے
آپ کی غلامی کا، بوجھ ہم نہ ڈھوئیں گے
آبرو سے مرنے کا، فیصلہ ہمارا ہے
عمر بھر تو کوئی بھی، جنگ لڑ نہیں سکتا
تم بھی ٹوٹ جاؤ گے، تجربہ ہمارا ہے
اپنی رہنمائی پر، اب غرور مت کرنا
آپ سے بہت آگے، نقشِ پا ہمارا...
غزل
(منظر بھوپالی)
جس کو بھی آگ لگانے کا ہُنر آتا ہے
وہی ایوانِ سیاست میں نظر آتا ہے
خالی دامن ہیں یہاں پیڑ لگانے والے
اور حصے میں لٹیروں کے ثمر آتا ہے
یاد آجاتی ہے پردیس گئی بہنوں کی
جھُنڈ چڑیوں کا جب آنگن میں اُتر آتا ہے
اَنگنت سال کا جلتا ہوا بوڑھا سورج
جانے کیوں روز سویرے میرے گھر آتا ہے