کاشفی

محفلین
غزل
(وسیم بریلوی)
میں اِس اُمید پہ ڈوبا کہ تو بچا لے گا
اب اس کے بعد میرا امتحان کیا لے گا


یہ ایک میلہ ہے وعدہ کسی سے کیا لے گا
ڈھلے گا دن تو ہر ایک اپنا راستہ لے گا

میں بُجھ گیا تو ہمیشہ کو بُجھ ہی جاؤں گا
کوئی چراغ نہیں ہوں جو پھر جلا لے گا

کلیجہ چاہیئے دشمن سے دشمنی کے لئے
جو بے عمل ہے وہ بدلہ کسی سے کیا لے گا


ہزار توڑ کے آجاؤں اُس سے رشتہ وسیم
میں جانتا ہوں وہ جب چاہے گا بُلا لے گا
 
Top