چاند پر اِک مے کدہ آباد ہونا چاہیے
یا محبت کو یہیں آزاد ہونا چاہیے
قاضیِ محشر! تری مرضی ، ہماری سوچ ہے
ظالموں کو دُنیا میں برباد ہونا چاہیے
روح کے بے رنگ افق پر، رات بھر گونجی ندا
دل پرندہ، فکر سے آزاد ہونا چاہئیے
خواہشِ جنت میں کرتے ہیں جو زاہد نیکیاں
نام اُن کا ’’متقی شداد‘‘ ہونا چاہیے...
پچھلے سبق میں بحر رمل سالم اور محذوف پر گفتگو رہی اب آگے چلتے ہیں۔
محذوف کے بارے میں تو بتا چکا ہوں کے بحر کے آخری اور سالم رکن سے آخری سبب خفیف کم کردینے کا نام حذف ہے، آج اسی بحر کے اسی وزن میں مزید اجازتوں پر بات کرتے ہیں۔
عروض یہ اجازت دیتا ہے کہ کسی بھی بحر کے آخر میں ہم ایک ساکن یا متحرک...
غالب کے اسلوب میں:
پیش خیمہ موت کا خوابِ گراں ہو جائے گا
سیکڑوں فرسنگ آگے کارواں ہو جائے گا
قالبِ خاکی کہاں تک ساتھ دے گا روح کا
وقت آ جانے دو اک دن امتحاں ہو جائے گا
چپکے چپکے ناصحا، پچھلے پہر رو لینے دے
کچھ تو ظالم، چارۂ دردِ نہاں ہو جائے گا
شب کی شب مہماں ہے یہ ہنگامۂ عبرت سرا
صبح تک...
(منقبت)
ثنا انکی سنبھل کر لکھ قلم صدیق اکبر ہیں
صداقت سے ہو، جو کچھ ہو، رقم، صدیق اکبرؓ ہیں
ذرا سوچو تو کیسے محترم صدےق اکبرؓ ہیں
بذات خود شہِ خیر الامم صدیق اکبرؓ ہیں
ہمارے اہل ایماں پر کرم صدیق اکبرؓ ہیں
بروزِ حشر امت کا بھرم صدیق اکبرؓ ہیں
عدالت میں امامت کی خبر از حکم پیغمبر
مصلّے پر...
الا یا ایها الساقی ادر کاسا و ناولها
که عشق آسان نمود اول ولی افتاد مشکلها
اردو ترجمہ چاہئے لفظی اور معنوی.
محمد یعقوب آسی
مہدی نقوی حجاز
محمد وارث
حسان خان
شاکرالقادری
بہت خوب!!!! اب بتائیں کہ حدیث اور قران پر عمل کیسے ہو؟
طریقہ بیان فرما دیں۔ میں حدیث اور قران پڑھنا چاہتا ہوں۔ اسی پر عمل کرنا چاہتا ہوں اس کے علاوہ کسی کی نہیں سننا چاہتا۔ مدد درکار ہے۔
غزل
گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیوں کر ہو
کہے سے کچھ نہ ہوا، پھر کہو تو کیوں کر ہو
ہمارے ذہن میں اس فکر کا ہے نام وصال
کہ گر نہ ہو تو کہاں جائیں؟ ہو تو کیوں کر ہو
ادب ہے اور یہی کشمکش، تو کیا کیجے
حیا ہے اور یہی گومگو تو کیوں کر ہو
تمہیں کہو کہ گزارا صنم پرستوں کا
بتوں کی ہو اگر ایسی ہی خو تو...
ابھی کچھ دیر پہلے ایک عزیز سے رباعی کے اوزان کے متعلق بات چل رہی تھی کہ رباعی کے چوبیس اوزان کو یاد رکھنا بڑا مشکل کام ہے اور بڑے بڑے عروضی بھی ان چوبیس اوزان کو اسی طرح لکھتے ہیں اور شاگردوں کو یاد کرواتے ہیں۔
قارئین میں جو میرا مضمون ہندی بحر کے حوالے سے پڑھ چکے ہیں انہیں کچھ عجب محسوس نہ...
غزل
(مزمل شیخ بسملؔ)
کچھ ایسی ہی لگی ہے چوٹ میرے رازِ پنہاں پر
جو آنسو آنکھ سے چل کر رکا ہے نوکِ مژگاں پر
نہیں آغازِ خط اے ہم نشیں رخصارِ جاناں پر
یہ قدرت نے لکھا ہے حاشیہ صفحاتِ قرأں پر
یہ فصلِ گل حقیقت میں بری شے ہے کہ دیکھا ہے
اسی موسم میں اکثر برق گرتی ہے گلستاں پر
کچھ ایسا لطف...
میر کی زمین میں یہ غزل گو کہ مشاعرے میں پیش کر چکا ہوں لیکن اب ماہرین کے مشوروں کا طالب ہوں اس غزل کے بارے میں::::
غزل
(مزمل شیخ بسملؔ)
جو کل تھی آج ہم میں وہ سیرت نہیں رہی
وہ دبدبہ وہ ہوش وہ شوکت نہیں رہی
جو کل تھی آج ہم میں وہ جرات نہیں رہی
وہ حوصلہ وہ جوش وہ ہمت نہیں رہی
جو کل تھی آج...
کیا زندگی ہے زیست کا کوئی مزا بھی ہے
ہم بے حیا ہیں ایسے کیا کوئی جیابھی ہے
خود چارہ گر, مریض بھی خود, خود دوا بھی ہے
ہر سانس میرا اسکے اسیر رضا بھی ہے
بسمل بتوں کو دیکھ کر ایماں قوی ہوا
جو حسن بے بہا ہے وہ شان خدا بھی ہے.