بسمل غزلیات میں ایک اور غزل کا اضافہ برائے تنقید:::: کچھ ایسی ہی لگی ہے چوٹ میرے رازِ پنہاں پر

غزل​
(مزمل شیخ بسملؔ)​
کچھ ایسی ہی لگی ہے چوٹ میرے رازِ پنہاں پر​
جو آنسو آنکھ سے چل کر رکا ہے نوکِ مژگاں پر​
نہیں آغازِ خط اے ہم نشیں رخصارِ جاناں پر​
یہ قدرت نے لکھا ہے حاشیہ صفحاتِ قرأں پر​
یہ فصلِ گل حقیقت میں بری شے ہے کہ دیکھا ہے​
اسی موسم میں اکثر برق گرتی ہے گلستاں پر​
کچھ ایسا لطف پایا ہم نشیں ہم نے اسیری میں​
کہ بیٹھے ہیں رہا ہوکر بھی اب تک بابِ زنداں پر​
نرالا ڈھنگ پایا ہے انھوں نے ذبح کرنے کا​
کہ دھبہ تک نہیں دیکھا کسی نے انکے داماں پر​
خیال آئے گا ان کو جب کبھ اپنی جفاؤں کا​
تو ہاتھ اپنا کریں گے صاف اپنے جیب و داماں پر​
دھواں گھٹتا ہے آہوں کا مرے سینے میں جب اٹھ کر​
تو دل کا عرق کھنچ آتا ہے ہمدم نوکِ مژگاں پر​
زمیں کیا اور دنیا کیا کفِ افسوس ملتی ہے
فلک آنسو بہاتا ہے ہماری شامِ ہجراں پر
ق​
کم از کم معتکف ہو اور زاہد ہو نمازی ہو​
گمانِ پارسائی ہو تو ہو ایسے مسلماں پر​
ان اپنے دست و پا کو قابو میں ہم لا نہیں سکتے​
تو پھر کیا زور چل سکتا ہمدم طائرِ جاں پر​
اجل سے مطمئن ہوں وقت سے پہلے نہ آئے گی​
بھروسہ کس طرح ہو اے مسیحہ تیرے درماں پر​
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
آپ کی غزل پر میری رائے کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، کہ میں مبتدی سے بھی گیا گزرا ہوں، مجھے وزن کا بھی پتہ نہیں چلتا اور میری بحریں بھی آپس میں دست و گریباں رہتی ہیں۔ بہرحال آپ کی غزل دیکھ کر تفصیل سے جو ہم نے اظہار خیال کیا ہے، وہ کچھ یوں ہے:
غزل​
(مزمل شیخ بسملؔ)​
کچھ ایسی ہی لگی ہے چوٹ میرے رازِ پنہاں پر​
جو آنسو آنکھ سے چل کر رکا ہے نوکِ مژگاں پر​
÷÷کیا راز پنہاں سے مراد آنسو ہے؟ کیا چوٹ آنسو پر لگی ہے؟۔۔ پھر ایسی ہی لگی ہے کے بعد تشنگی سی ہے ’’کہ جیسے‘‘ کی طرح کے الفاظ اس تشنگی کو دور کرسکتے تھے شاید۔۔۔یہ بتاتے چلیں کہ مطلع خود ہمارے لیے بھی ٹیڑھی کھیر اور درد سر رہا ہے۔ اس لیے ہمارا اعتراض بجائے خود باعث اعتراض ہوسکتا ہے جس پر ہمیں حیرت نہیں ہوگی۔​
نہیں آغازِ خط اے ہم نشیں رخصارِ جاناں پر​
یہ قدرت نے لکھا ہے حاشیہ صفحاتِ قرأں پر​
÷÷ رخصار ہم نے آج تک نہیں پڑھا۔ رخسار پڑھا ہے۔ مطلب کی طرف آئیے تو ہمیں تو یہی معلوم ہوا کہ : قدرت نے صفحات قرآن پر جو حاشیہ لکھا ہے اس کے مطابق رخسار جاناں سے خط کا آغاز نہیں ہوتا۔ خط سے کیا مراد ہے؟​
یہ فصلِ گل حقیقت میں بری شے ہے کہ دیکھا ہے​
اسی موسم میں اکثر برق گرتی ہے گلستاں پر​
÷÷÷اچھا شعر ہے۔ اس پر یاد آیا: گلوں کو ربط رہتا ہے فقط فصل بہاری سے، مگر کانٹے خزاں میں بھی چمن کا ساتھ دیتے ہیں۔۔۔​
کچھ ایسا لطف پایا ہم نشیں ہم نے اسیری میں​
کہ بیٹھے ہیں رہا ہوکر بھی اب تک بابِ زنداں پر​
÷÷ باب زنداں پر بیٹھنا غور طلب ہے، شاید۔۔۔​
نرالا ڈھنگ پایا ہے انھوں نے ذبح کرنے کا​
کہ دھبہ تک نہیں دیکھا کسی نے انکے داماں پر​
÷÷خنجر پہ کوئی داغ، نہ دامن پہ کوئی چھینٹ، تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو۔۔۔اچھا ہے۔​
خیال آئے گا ان کو جب کبھ اپنی جفاؤں کا​
تو ہاتھ اپنا کریں گے صاف اپنے جیب و داماں پر​
÷÷÷کبھ تو ظاہر ہے کوئی لفظ نہیں ہے۔ٹائپنگ کی غلطی ہے کہ آپ نے لکھ دیا۔ لفظ ہے کبھی۔۔۔ بہرحال اس کا مطلب کیا ہے ہم جان نہیں پائے کہ یہاں شاعر کیا کہنا چاہتا ہے۔​
دھواں گھٹتا ہے آہوں کا مرے سینے میں جب اٹھ کر​
تو دل کا عرق کھنچ آتا ہے ہمدم نوکِ مژگاں پر​
÷÷نوک مژگاں کی ترکیب کا مطلب جانتے تو ضرور کچھ کہتے۔۔۔​
زمیں کیا اور دنیا کیا کفِ افسوس ملتی ہے
فلک آنسو بہاتا ہے ہماری شامِ ہجراں پر
÷÷÷شعر کے الفاظ سے لگتا ہے کہ شاعر کی نظر میں زمین اور دنیا دونوں سے زیادہ فلک اہم ہے۔۔۔ یہی بات ہے؟​
کم از کم معتکف ہو اور زاہد ہو نمازی ہو​
گمانِ پارسائی ہو تو ہو ایسے مسلماں پر​
÷÷صرف اظہار خیال ہے لیکن برا نہیں ہے۔​
ان اپنے دست و پا کو قابو میں ہم لا نہیں سکتے​
تو پھر کیا زور چل سکتا ہمدم طائرِ جاں پر​
÷÷÷زور چل سکتا کے بعد ہے لکھنا تھا، وہ آپ نے نہیں لکھا۔ ہم اپنے دست و پا بھی اپنے قابو میں نہیں پاتے۔۔۔ شاید آپ کوبہتر لگے​
اجل سے مطمئن ہوں وقت سے پہلے نہ آئے گی​
بھروسہ کس طرح ہو اے مسیحہ تیرے درماں پر​
÷÷÷مسیحا شاید الف سے ہوتا ہے، نہیں ہوتا تو ہماری غلط فہمی بھی دور کی جائے۔ ایک غلط فہمی اور بھی ہے۔ مسیحا کا درماں بھی ہوتا ہے؟ درماں تو درد کا ہوتا ہے۔کیا مسیحا خود کوئی درد تھا؟
 

الف عین

لائبریرین
کچھ باتوں سے متفق ہوں شاہد کی، کچھ سے نہیں۔
ایک مشورہ بسمل کو۔ بھئی اتنے فرسودہ خیالات اور موضوعات سے پرہیز کیا کرو۔ مثلاً رخسار پہ خط، کہ شاہد جیسے جدید شاعروں کی سمجھ میں ہی نہیں آ سکے کہ کیا مراد ہے۔
ویسے یہ ابھی دیکھا ہے کہ یہ غزل اصلاح کے زمرے میں پوسٹ کی گئی ہے۔ بعد میں تفصیل سے رائے دیتا ہوں
 
کچھ باتوں سے متفق ہوں شاہد کی، کچھ سے نہیں۔
ایک مشورہ بسمل کو۔ بھئی اتنے فرسودہ خیالات اور موضوعات سے پرہیز کیا کرو۔ مثلاً رخسار پہ خط، کہ شاہد جیسے جدید شاعروں کی سمجھ میں ہی نہیں آ سکے کہ کیا مراد ہے۔
ویسے یہ ابھی دیکھا ہے کہ یہ غزل اصلاح کے زمرے میں پوسٹ کی گئی ہے۔ بعد میں تفصیل سے رائے دیتا ہوں

آپ کا مشورہ درست ہے استاد جی۔ اس بات پر ہمارے وفا صاحب (مرزا اسحاق بیگ جو میرے انگریزی کے استاد اور بزرگ ساتھی شاعر ہیں) بھی پچھلے دنوں کہہ رھے تھے کہ بسمل میاں!! جدید دور میں جدت کے بجائے تم پرانے چل رہے ہو اب تک۔
اب میری شاعری پرانے انداز کی ہے تو اس میں میرا بہر حال قصور تو کوئی بھی نہیں کہ اکثر لوگ میرے بالوں میں اتری ”چاندی“ میری شاعری سے محسوس کرلیتے ہیں۔ :confused: (مذاق)
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
کچھ باتوں سے متفق ہوں شاہد کی، کچھ سے نہیں۔
ایک مشورہ بسمل کو۔ بھئی اتنے فرسودہ خیالات اور موضوعات سے پرہیز کیا کرو۔ مثلاً رخسار پہ خط، کہ شاہد جیسے جدید شاعروں کی سمجھ میں ہی نہیں آ سکے کہ کیا مراد ہے۔
ویسے یہ ابھی دیکھا ہے کہ یہ غزل اصلاح کے زمرے میں پوسٹ کی گئی ہے۔ بعد میں تفصیل سے رائے دیتا ہوں
ہم جدید شاعر ہیں ، یہ طے ہوگیا یعنی۔۔۔ لیکن میں جولمبی چوڑی برقی کتاب یعنی اپنا دیوان آپ کو بھیجوں گا، اس کے بعد یہ حتمی طور پر بتائیے گا کہ میں شعراء کی کس کیٹگری میں فٹ بیٹھتا ہوں۔۔۔

اب میری شاعری پرانے انداز کی ہے تو اس میں میرا بہر حال قصور تو کوئی بھی نہیں کہ اکثر لوگ میرے بالوں میں اتری ”چاندی“ میری شاعری سے محسوس کرلیتے ہیں۔ :confused: (مذاق)
آپ کی شاعری پرانی ہے تو قصور یا خوبی دونوں آپ ہی کے ہیں ۔ جدید شاعری کوئی خوبی اور روایتی شاعری میری نظر میں کوئی خامی نہیں۔ جدید شاعری کرنے والا شخص روایتی شاعری کی طرف جا سکتا ہے اور جو آپ کی طرح روایتی شعر کہتا ہو، اس کے لیے جدید شاعری کرنا کوئی مشکل بات نہیں۔۔۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بہت مشکل غزل ہے۔
شاہد بھائی نے بالکل درست کہا ہے۔
بسمل بھائی آُ سے ایک درخواست ہے کہ ایک غزل جدید شعراء جیسے محسن نقوی کی طرز پہ بھی لکھئے پلیز۔
 
بہت مشکل غزل ہے۔
شاہد بھائی نے بالکل درست کہا ہے۔
بسمل بھائی آُ سے ایک درخواست ہے کہ ایک غزل جدید شعراء جیسے محسن نقوی کی طرز پہ بھی لکھئے پلیز۔

محسن نقوی میرے پسندیدہ شاعروں میں ہیں۔ یہ لائبریری کا تھوڑا کام ختم ہو تو انشا اللہ لکھونگا ضرور۔
کچھ دن پہلے عید پر ایک شعر سرزد ہوا تھا۔ :
عید آتی تو ملاقات کا شکوہ کرتا
عید کو عید بنانے کوئی آیا کرتا

اور ایک شعر یوں تھا:
یوں تو خلوت میں مضامین بہت ہوتے ہیں
شعر کوئی سرِ محفل نہیں سوجھا کرتا
:D

اسی طرح پر فرصت میں لکھونگا۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
محسن نقوی میرے پسندیدہ شاعروں میں ہیں۔ یہ لائبریری کا تھوڑا کام ختم ہو تو انشا اللہ لکھونگا ضرور۔
کچھ دن پہلے عید پر ایک شعر سرزد ہوا تھا۔ :
عید آتی تو ملاقات کا شکوہ کرتا
عید کو عید بنانے کوئی آیا کرتا

اور ایک شعر یوں تھا:
یوں تو خلوت میں مضامین بہت ہوتے ہیں
شعر کوئی سرِ محفل نہیں سوجھا کرتا
یہ شعر واقعی بہت اچھا لگا۔
:D

اسی طرح پر فرصت میں لکھونگا۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
حقیقت پسندی ہے بلال۔
میں ابھی تمھاری طرح ہی طفلِ مکتب ہوں۔ بلکہ شاعری کے معاملے میں تو تم مجھ سے بہت بہتر ہو۔

ارے جناب کیسی باتیں کرتے ہیں۔
مجھے تو ابھی تک سبب خفیف، حرف روی وغیرہ کا ہی نہیں پتہ۔
وتد، مجموع اور بھی بہت سی چیزیں ہیں جن کا نہیں پتہ۔
 
ارے جناب کیسی باتیں کرتے ہیں۔
مجھے تو ابھی تک سبب خفیف، حرف روی وغیرہ کا ہی نہیں پتہ۔
وتد، مجموع اور بھی بہت سی چیزیں ہیں جن کا نہیں پتہ۔
وہ بھی پتہ لگ جائے گا جناب۔ بس چلتے جائیں۔

مجھ کو منزل کا پتا ایسے ملا ہے دوستو!
ہیں جہاں تک انکے قدموں کے نشاں جاتا رہا
(بسملؔ)
 

الف عین

لائبریرین
کچھ ایسی ہی لگی ہے چوٹ میرے رازِ پنہاں پر
جو آنسو آنکھ سے چل کر رکا ہے نوکِ مژگاں پر
//راز پر چوٹ کیسے لگ سکتی ہے؟ دوسرا مصرع خوبسورت ہے، دوسری گرہ لگاؤ،

نہیں آغازِ خط اے ہم نشیں رخصارِ جاناں پر
یہ قدرت نے لکھا ہے حاشیہ صفحاتِ قرأں پر
رخسار سین سے ہوتا ہے میاں! شعر درست ہے، اور بہت خونسورت ہوتا اگر آج سے دو سو برس پہلے کہا جاتا۔

یہ فصلِ گل حقیقت میں بری شے ہے کہ دیکھا ہے
اسی موسم میں اکثر برق گرتی ہے گلستاں پر
//درست

کچھ ایسا لطف پایا ہم نشیں ہم نے اسیری میں
کہ بیٹھے ہیں رہا ہوکر بھی اب تک بابِ زنداں پر
//پرند ہو یا انسان؟ باب کے اوپر تو پرند بیٹھتے ہیں، شعر یوں بھی درست ہے

نرالا ڈھنگ پایا ہے انھوں نے ذبح کرنے کا
کہ دھبہ تک نہیں دیکھا کسی نے انکے داماں پر
//کلیم عاجز کے بے پناہ شعر کی نقل لگتی ہے۔ اسے نکال ہی دو۔

خیال آئے گا ان کو جب کبھ اپنی جفاؤں کا
تو ہاتھ اپنا کریں گے صاف اپنے جیب و داماں پر
//’جیب پر ہاتھ صاف کرنا ’سے مراد پاکٹ مارنا ہوتا ہے!!!! جفاؤں کے پچھتاوے میں ہاتھ کیوں صاف کرے گا کوئی؟

دھواں گھٹتا ہے آہوں کا مرے سینے میں جب اٹھ کر
تو دل کا عرق کھنچ آتا ہے ہمدم نوکِ مژگاں پر
//خیال اچھا ہے، لیکن ’ہمدم‘ بھرتی کا لفظ ہے۔

زمیں کیا اور دنیا کیا کفِ افسوس ملتی ہے
فلک آنسو بہاتا ہے ہماری شامِ ہجراں پر
//مفہوم درست نہیں۔ اس کو بدل ہی دو۔

ق

کم از کم معتکف ہو اور زاہد ہو نمازی ہو
گمانِ پارسائی ہو تو ہو ایسے مسلماں پر
//پہلی بات یہ کہ یہ اشعار قطع بند تو نہیں لگتے۔
پھر معتکف، زاہد نمازی میں کیا چیز مختلف ہے، اعتکاف محض رمضان میں ہوتا ہے، پارسائی میں نماز روزے کی بات تو کی جا سکتی ہے، بلکہ محض نماز کی، جو بلا ناغہ پانچ وقت فرض ہے۔ کم از کم اعتکاف کی شرط کیوں؟ مثلاً
نمازی پنج وقتہ ہو جو ایسا نیک و زاہد ہو
حالانکہ یہ شعر بھی درست نہیں۔ کچھ اور کہو اس قسم کا۔

ان اپنے دست و پا کو قابو میں ہم لا نہیں سکتے
تو پھر کیا زور چل سکتا ہمدم طائرِ جاں پر
//پہلے مصرع میں الفاظ کی نشست درست نہیں۔ مثلاً یوں کر دو؛
نہ رکھ سکتے ہیں اپنے دست و پا ہی اپنے قابو میں
تو پھر کیا زور چل سکتا ہمدم طائرِ جاں پر

اجل سے مطمئن ہوں وقت سے پہلے نہ آئے گی
بھروسہ کس طرح ہو اے مسیحہ تیرے درماں پر
//درست
 
Top