شعر برائے تقطیع

ہنس پڑتا ہے بہت زیادہ غم میں بھی انساں​
بہت خوشی سے بھی تو آنکھیں ہو جاتی ہیں نم​
فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن مفعولن
اس میں تسکین و تحریک کی بہت گنجائش ہے۔ بحرِ زمزمہ

آسان عروض کے دس سبق والے دھاگے میں اسی بحر کے حوالے سے آپ کا اپنا تفصیلی نوٹ بھی موجود ہے اور میری گزارشات بھی۔
زحمت فرمائیے گا۔
 
جناب مزمل شیخ بسمل

مذکورہ دھاگہ ۔۔ جواب نمبر 23

السلام علیکم۔
محترم استاد محمد یعقوب آسی کو ستانے کے لئے پھر حاضر ہوں۔ :)
آج تیسرا سبق پڑھا اور ایک اعتراض بھی سامنے آیا۔ (فاعلات کو پڑھنے کا باوجود کوشش کے بھی وقت نہیں نکال پایا ہوں۔)
خیر بات یہ ہے کہ بحر زمزمہ (یعنی فعلن فعلن والی بحر۔) اس سلسلے میں یہ کہنا چاہونگا کہ یہ دو بحور ہیں۔ پہلی تو متدارک پر خبن لگانے سے نکلتی ہے جس کے ارکان ہیں:
فعِلن فعِلن فعِلن فعِلن فعِلن فعِلن فعِلن فعِلن۔
اس میں تسکین اوسط سے کسی بھی تین متحرک حروف میں درمیان والا ساکن کیا جاسکتا ہے اور مستعمل بھی ہے۔ یعنی کسی بھی فَعِلن (001) کو فعلن بسکون عین (11) میں تقسیم کیا جائے تو درست ہوگا۔ مثالیں بہت عام ہیں۔

دوسری (عرف عام میں ہندی بحر) بحر متقارب ثرم، قبض او حذف لگانے سے حاصل ہوتی ہے جس کے ارکان ہیں:
فعلُ فعولُ فعولُ فعولُ فعولُ فعولُ فعولُ فعَل

اس میں بھی وہی تسکین اوسط کام دکھائے گا اور جہاں آپ کی مرضی ہو وہاں مسلسل تین متحرک سے درمیان والے کو ساکن کریں۔
عام طور پر اسکی یہ تراکیب مستعمل ہیں:
فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فع
فعلن فعلن فعل فعولن فعل فعولن فعلن فع
فعل فعولن فعل فعولن فعل فعولن فعلُ فعَل
فعل فعولن فعل فعولن فعل فعولن فعلن فع
وغیرہ۔۔
یہ ساری تراکیب اسی بنیادی وزن پر تسکین اوسط کے عمل سے نکلتی ہیں جو اوپر بتایا۔ مگر اس بحر کا خلط اوپر والی متدارک بحر کے ساتھ جائز نہیں ہے۔
عام طور پر ان دونوں بحور کو ایک ہی سمجھا جاتا ہے۔ مگر ایسا درست نہیں کیونکہ جس شعر میں فَعِلن ہوگا وہاں فعلُ فعولن نہیں ہوسکتا، اور جہاں فعل فعولن ہوگا وہاں فعِلن جائز نہیں۔
خود عروضی حضرات بھی اس میں ایک بہت بڑی غلطی کے مرتکب ہیں۔
استاد پروفیسر غضنفر صاحب نے بھی ان دونوں بحور کو یکجا بتا دیا ہے حالانکہ اس روش سے تو خوب اغلاط کا امکان ہے۔
امید ہے اس معاملے پر غور فرمائینگے۔
اور کسی ناگوار بات کی صورت میں بہت بہت معذرت کا طلبگار ہوں کہ ابھی طفل مکتب ہوں تو درگزر فرمائیے گا۔
طالب علم:
بسملؔ
 
اور میری گزارش
مجھے اس سوال کی توقع تھی، جنابِ​
مزمل شیخ بسمل​
!​
روایتی عروض اور زحافات کے بنیادی حوالوں سے آپ کے ارشادات بالکل بجا ہیں۔ تاہم میں جیسا پہلے عرض کر چکا ہوں، (اور اتفاق سے رات ہی آپ کا عروض والا صفحہ بھی دیکھا) خاص طور پر اِس بحر (زمزمہ) کے حوالے سے۔ میں نے اس پر کسی قدر تفصیل سے بات کی ہے۔ اور متداول شاعری میں حرکات و سکنات کی جو بہت سی تراتیب دیکھنے میں آ رہی ہیں اُن میں پوری پوری غزلیں سامنے رکھ کر اُن کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے۔​
میں آپ کے اس احساس سے کلی طور پر متفق ہوں کہ عروض کے کلاسیکی قواعد کا پیروکار یہاں سر پیٹ کر رہ جاتا ہے۔ تو پھر کوئی نہ کوئی ایسا فارمولا تو رہا ہو گا جو ہمیں سہولت کی طرف لے جائے۔ اسی فارمولے کو پانے کوشش ہے، اس کو آپ جس طور بھی دیکھ لیں۔ اپنی ’’عروضی بدعتوں‘‘ کا اعتراف پہلے بھی کر چکا ہوں۔ اسی لئے تو غضنفر کے تتبع میں اس بحر کو ’’بحرِ زمزمہ‘‘ کا نام دیا ہے۔​

ہمارا روایتی عروض تو اس بات کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ وہاں تو یہ ہے کہ مثال کے طور پر ’’​
بحر متقارب مسدس یا مثمن اثرم، مقبوض، محذوف‘‘ ہے اور دوسری ’’بحر متدارک مخبون (بشمول مزید زحافات)‘‘ ہے۔ تسکینِ اوسط کو بھی شامل کر لیجئے تو اِن کا مجموعی حاصل ایک دوسرے سے منطبق نہیں تو بھی بہت قریب ضرور پہنچ جاتا ہے۔ فاعلن کی ع ہٹا دیجئے یا فعولن کی ف، نتیجہ منطبق ہو گیا (دو سببِ خفیف)۔
فاعلن سے جو دو سببِ خفیف ملے اُس کو بحرِ متدارک کی مزاحف صورت کہہ لیجئے، اور فعولن سے ان کے متماثل جو دو سبب خفیف حاصل ہوئے اس کو بحرِ متقارب قرار دے دیجئے۔ اطلاقی سطح دونوں کی ایک ہے۔ اب میں کیا عرض کروں۔
 
ہنس پڑتا ہے بہت زیادہ غم میں بھی انساں​
بہت خوشی سے بھی تو آنکھیں ہو جاتی ہیں نم​

لیکن کسی بھی وزن پر اس شعر کی تقطیع نہیں ہوتی۔

مجھے تو ایسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوا۔ میں نے اوپر جواب نمبر 4 میں تقطیع بھی لکھ دی۔

ایک لفظ ’’بہت‘‘ (جو اصولی طور پر وتد مجموع ہے) یہاں دونوں مصرعوں میں وتد مفروق بن رہا ہے۔ بحرِ زمزمہ میں یہ گنجائش دیگر شعراء نے بھی لی ہے۔ کہ یہاں شاعر آسانی سے ’’چھندا بندی‘‘ کے زیرِ اثر چلا جاتا ہے۔

مثالیں ’’دس سبق‘‘ میں آ چکی ہیں۔ میں اسے یہاں بھی نقل کر دیتا مگر میرے لئے مکمل خانے وغیرہ نقل کرنا مشکل ہے۔

دعاؤں کا طالب ہوں۔
 
چھندا بندی میں ’’ماترے‘‘ گنے جاتے ہیں، اور حرکات و سکنات کی ترتیب ثانوی ہوتی ہےاور ایک طرح کی لچک پیدا ہو جاتی ہے، جو عروض میں نہیں ہوتی۔
 
لیکن بہت کا یہ تلفظ کہیں دکھا نہیں آج تک. نہ ہی ایسی کوئی مثال سامنے آئی. اس بحر میں اور بھی غزلیں لکھی جا چکی ہیں. مگر تلفظ کہیں بدلتا نہیں. اگر آپ کی نظر میں ایسی کوئی مثال آئی ہو تو میں ازراہ علم ضرور دیکھنا چاہونگا.
 
میرا جی کی ایک غزل کے کچھ شعر:۔

نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستہ بھول گیا
کیا ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بھول گیا
سوجھ بوجھ کی بات نہیں ہے من موجی ہے مستانہ
لہر لہر سے جا سر ٹپکا ساگر گہرا بھول گیا
ہنسی ہنسی میں کھیل کھیل میں بات کی بات میں رنگ مٹا
دل بھی ہوتے ہوتے آخر گھاؤ کا رِسنا بھول گیا
’’سوجھ بوجھ‘‘ اور ’’کھیل کھیل‘‘ کو دیکھ لیجئے۔
 
Top