سر پہ کلاہِ کج دھرے زلف دراز خم بہ خم
آہوئے چشم ہے غضب، ترک نگاہ ہے ستم
چاند سے منہ پہ خال دو، ایک ذقن پہ رخ پہ ایک
اس سے خرابی عرب، اس سے تباہی عجم
وہ خمِ گیسوئے دراز، دامِ خیالِ عاشقاں
ہو گئے بے طرح شکار، اب نہ رہے کہیں کے ہم
عشوۂ دل گداز وہ، ذبح کرے جو بے چھری
ناز وہ دشمن وفا، رحم کی جس...
اس غزل کو ٹائپ کرنے کی وجہ ایک تو یہ تھی کہ یہ مشہور زمانہ غزل شاید ابھی تک پسندیدہ کلام کا حصہ نہیں بنی۔ کم از کم میری تلاش کے مطابق۔ اور دوسری وجہ اس کے اکثر اشعار کا بگڑی ہوئی حالت میں مشہور ہونا ہے۔ تابش کانپوری کی یہ غزل اصل حالت میں آپ احباب کی باذوق بصارتوں کی نذر ہے۔
تیری صورت نگاہوں...
ایک اور سال اختتام پذیر ہوگیا۔ ابھی کل ہی کی بات لگ رہی ہے کہ میں کہروا لکھ رہا تھا۔ کہ ابھی ایک اور دھند میرے روز و شب پر چھائی جاتی ہے۔ کہار اس سال کی ڈولی کو اٹھانے آپہنچے ہیں۔ ان کے لبوں پر وہی وقت کے اڑتے جانے کے گیت ہیں اور میں اس سوچ میں گم ہوں کہ یہ سال کیسا رہا۔ اچھا یا برا؟
آغاز سال تو...
میں گزشتہ دنوں سے غم و غصے کی جس کیفیت میں ہوں شاید میں اس کو الفاظ میں کبھی بھی نہ ڈھال سکوں۔ خدا گواہ ہے کہ جب میں سوشل میڈیا پر انا للہ و انا الیہ راجعون لکھ رہا تھا تو میرے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ ایک لہر تھی جو میرے پورے وجود میں دوڑ رہی تھی۔ میں اس کو غم سمجھ رہا تھا۔ لیکن مجھے احساس ہوا کہ...
کل شب دلِ آوارہ کو سینے سے نکالا
یہ آخری کافر بھی مدینے سے نکالا
یہ فوج نکلتی تھی کہاں خانۂِ دِل سے
یادوں کو نہایت ہی قرینے سے نکالا
میں خون بہا کر بھی ہوا باغ میں رُسوا
اُس گُل نے مگر کام پسینے سے نکالا
ٹھہرے ہیں زر و سیم کے حقدار تماشائی
اور مارِ سیہ ہم نے دفینے سے نکالا
یہ سوچ کے...
جسم کا بوجھ اٹھائے ہوئے چلتے رہیے
دھوپ میں برف کی مانند پگھلتے رہیے
یہ تبسم تو ہے چہروں کی سجاوٹ کے لیے
ورنہ احساس وہ دوزخ ہے کہ جلتے رہیے
اب تھکن پاؤں کی زنجیر بنی جاتی ہے
راہ کا خوف یہ کہتا ہے کہ چلتے رہیے
زندگی بھیک بھی دیتی ہے تو قیمت لے کر
روز فریاد کا انداز بدلتے رہیے
اوّلیں چند دسمبر کے
(امجد اسلام امجد سے معذرت کے ساتھ)
اوّلیں چند دسمبر کے
ہربرس ہی عجب گزرتے ہیں
انٹرنٹ کے نگار خانے سے
کیسے کیسے ہنر گزرتے ہیں
بے تکے بےوزن کلاموں کی
محفلیں کئی ایک سجتی ہیں
میڈیا کے سماج سے دن بھر
کیسی پوسٹیں پکارتی ہیں مجھے
"جن میں مربوط بےنوا گھنٹی"
ہر نئی اطلاع پہ بجتی ہے...
وے سائیں تیرے چرخے نے
اَج کت لیا کتن والی نوں
ہر اِک مُڈھا پچھی پایا
نہ کوئی گیا تے نہ کوئی آیا
ہائے اللہ اَج کی بنیاں
اِس چھوپے کتن والی نوں
تاک کسے نہ کھولے پِیڑے
نِسل پئے رانگلے پیڑھے
ویکھ اٹیرن باورا ہویا
لبھدا اَتن والی نوں
کسے نہ دِتی کسے نہ منگی
دُوجے کنی واج نہ لنگی
امبر ہس کے ویکھن...
گزشتہ کئی دن سے قیصرانی بھائی غیر حاضر تھے۔ آج ان سے غیر حاضری کا سبب دریافت کرتے ہوئے پتا چلا کہ گزشتہ دنوں ان کی پھپھو کا رضائے الہی سے انتقال ہوگیا ہے۔ اللہ سبحان و تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے، انہیں جوار رحمت میں جگہ دے۔ اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین
انا للہ و انا الیہ راجعون
اپنی مٹی کو سرفراز نہیں کر سکتے
یہ در و بام تو پرواز نہیں کر سکتے
عالم خواہش و ترغیب میں رہتے ہیں مگر
تیری چاہت کو سبوتاژ نہیں کر سکتے
حسن کو حسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے
شہر میں ایک ذرا سے گھر کی خاطر
اپنے صحراؤں کو ناراض نہیں کر سکتے
عشق وہ کار مسلسل ہے کہ...
پرائے پن کا ہے اب تک پڑاؤ لہجے میں
کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ، لگاؤ لہجے میں
یہ بات اپنی طرف سے نہیں کہی تم نے
عیاں ہے صاف کسی کا دباؤ لہجے میں
عد م توجہی گویا، مری کھلی اُس کو
تبھی در آیا ہے اتنا تناؤ لہجے میں
یہ گفتگو، کسی ذی روح کی نہیں لگتی
کوئی اتار نہ کوئی چڑھاؤ لہجے میں
زبان پر تو بظاہر...
چاہت کے صبح و شام محبت کے رات دن
دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
وہ شوقِ بے پناہ میں الفاظ کی تلاش
اظہار کی زباں میں لکنت کے رات دن
وہ ابتدائے عشق وہ آغازِ شاعری
وہ دشتِ جاں میں پہلی مسافت کے رات دن
سودائے آذری میں ہوائے صنم گری
وہ بت پرستیوں میں عبادت کے رات دن
روئے نگاراں و چشمِ...
درد اور درد کی، سب کی ہے دوا ایک ہی شخص
یاں ہے جلاد و مسیحا بخدا ایک ہی شخص
حور و غلماں کے لیے لائیں دل آخر کس کا
ہونے دیتا نہیں یاں عہدہ برآ ایک ہی شخص
قافلے گزریں وہاں کیونکہ سلامت واعظ
ہو جہاں راہزن اور راہنما ایک ہی شخص
قیس سا پھر کوئی اٹھا نہ بنی عامرمیں
فخر ہوتا ہے گھرانے کا سدا ایک ہی...
ترے نزدیک آکر سوچتا ہوں
میں زندہ تھا کہ اب زندہ ہوا ہوں
جن آنکھوں سے مجھے تم دیکھتے ہو
میں ان آنکھوں سے دنیا دیکھتا ہوں
خدا جانے مری گھٹڑی میں کیا ہے
نہ جانے کیوں اٹھائے پھر رہا ہوں
یہ کوئی اور ہے اے عکس دریا
میں اپنے عکس کو پہچانتا ہوں
نہ آدم ہے نہ آدم زاد کوئی
کن آوازوں سے سر ٹکرا رہا ہوں...
اے دل نہ سن افسانہ کسی شوخ حسیں کا
ناعاقبت اندیش رہے گا نہ کہیں کا
دنیا کا رہا ہے دل ناکام نہ دیں کا
اس عشق بد انجام نے رکھا نہ کہیں کا
ہیں تاک میں اس شوخ کی دزدیدہ نگاہیں
اللہ نگہبان ہے اب جان حزیں کا
حالت دل بیتاب کی دیکھی نہیں جاتی
بہتر ہے کہ ہوجائے یہ پیوند زمیں کا
گو قدر وہاں خاک کی بھی...
یا رب مری حیات سے غم کا اثر نہ جائے
جب تک کسی کی زلف پریشاں سنور نہ جائے
وہ آنکھ کیا جو عارض و رخ پر ٹھہر نہ جائے
وہ جلوہ کیا جو دیدہ و دل میں اتر نہ جائے
میرے جنوں کو زلف کے سائے سے دور رکھ
رستے میں چھاؤں پا کے مسافر ٹھہر نہ جائے
میں آج گلستاں میں بلا لوں بہار کو
لیکن یہ چاہتا ہوں خزاں روٹھ...
بچپن سے پنجابی کا ایک لطیفہ سنتا آرہا ہوں۔ اس سے پہلے بات شروع کروں۔ ضروری ہے کہ احباب بھی اس لطیفے سے آشنا ہوجائیں۔
ایک آدمی تھا۔ اس کو بہت لمبی لمبی گپیں ہانکنے کا شوق تھا۔ وہ جب بھی کوئی قصہ سناتا تو ایسا کہ ذی شعور تو ایک طرف ناداں بھی اس پر یقین نہ کرے۔ ایک دن اس کے ایک خیرخواہ نے سمجھایا...
مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے
یہ دنیا ہو یا وہ دنیا اب خواہش دنیا کون کرے
جب کشتی ثابت وسالم تھی، ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے
جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں سے
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے
دنیا نے ہمیں...
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمیں کہیں آسماں نہیں ملتا
تمام شہر میں ایسا نہیں خلوص نہ ہو
جہاں امید ہو اس کی وہاں نہیں ملتا
کہاں چراغ جلائیں کہاں گلاب رکھیں
چھتیں تو ملتی ہیں لیکن مکاں نہیں ملتا
یہ کیا عذاب ہے سب اپنے آپ میں گم ہیں
زباں ملی ہے مگر ہم زباں نہیں ملتا
چراغ جلتے ہیں...
دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو
شفق دھنک مہتاب گھٹائیں تارے نغمے بجلی پھول
اس دامن میں کیا کیا کچھ ہے دامن ہاتھ میں آئے تو
چاہت کے بدلے میں ہم تو بیچ د یں اپنی مرضی تک
کوئی ملے تو دل کا گاہک کوئی ہمیں اپنائے تو
سنی سنائی بات نہیں یہ...