سولھویں سالگرہ ظہیر احمد ظہیر بھائی سے ادبی اور علمی مکالمہ

یاز

محفلین
یاز بھائی ، جاسوسی ادب سے میری مراد mystery ....detective... suspense وغیرہ کی اصناف ہیں ۔ بڑے بھائی سب رنگ ڈائجسٹ لایا کرتے تھے ۔ سسپنس اور جاسوس ڈائجسٹ میں لائبریری یا ادھر ادھر دوستوں سے لے کر پڑھ لیا کرتا تھا۔ نک ویلوٹ کی کہانیاں ہمیشہ پڑھتا تھا اور اچھی لگتی تھیں۔ اس کے علاوہ جو کہانیاں انگریزی سے ترجمہ ہوتی تھیں انہیں بھی پڑھا کرتا تھا۔ اردو افسانے اور ناول بہت بہت بہت ہی کم پڑھے کہ پسند نہیں آتے تھے ۔ اس کی تفصیلی وجہ آگے کسی سوال کے جواب میں لکھوں گا۔
سب رنگ ڈائجسٹ کا ایک سلسلہ بازیگر درمیان سے پرھنا شروع کیا تھا لیکن پھر سب رنگ ہی آہستہ آہستہ چھپنا بند ہوگیا۔ سو وہ بھی نامکمل رہ گیا ۔
جی بھائی! میں بھی ایسی ہی کہانیوں کی بابت پوچھ رہا تھا، کہ ان ڈائجسٹوں میں سب سے خاصے کی چیز ترجمہ شدہ کہانیاں ہی ہوا کرتی تھیں۔
نک ویلوٹ کا بھی خوب یاد کرایا۔ اسی طرح ایڈگر نامی سراغ رساں کی کہانیاں بھی کبھی کبھار آیا کرتی تھیں۔ جیمز ہیڈلے چیز اور ارل سٹینلے گارڈنر کے ناولز سے بھی انہی ڈائجسٹوں میں ہی شناسائی ہوئی، جن کا ترجمہ اثر نعمانی کیا کرتے تھے۔
بازی گر بھی خوب سلسلہ تھا، ہم نے بھی کچھ اقساط پڑھیں، لیکن مکمل نہ پڑھ پائے۔ کہیں پڑھا تھا کہ یہ شکیل عادل زادہ صاحب خود تحریر کیا کرتے تھے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کیا آپ بھی فطرتا شاعر ہیں یا یہ رجحان کسی ماحول کی وجہ سے آیا؟ آپ نے کن شعراء کو زیادہ پڑھا اور ہمیشہ سر دھنا؟
گھر میں شاعری کا ماحول نہیں تھا ۔ البتہ سب سے بڑے بھائی مقالاتِ سر سید اور اسی قبیل کی خشک کتابیں پڑھا کرتے تھے ۔ :D
جہاں تک میری یاد داشت کام کرتی ہے مجھے پرائمری اسکول کے زمانے ہی سے شاعری اچھی لگتی تھی۔ نصابی کتب میں شامل نظمیں ایک ہی دفعہ پڑھ کر یاد ہوجاتی تھیں ۔ آٹھویں جماعت میں شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والے ایک دوست بن گئے۔ چنانچہ اردو شاعری اور کہانیاں لکھنا شروع کیں ۔ ایک نظم حکیم سعید کے نونہال میں بھی شائع ہوئی ۔
ہمارے انگریزی کے استاد وحید الدین مرحوم بہت شفیق اور قابل استاد تھے ۔ انگریزی کا شوق انہی کی تعلیم اور ترغیب کی وجہ سے ہوا۔نویں جماعت کے انگریزی نصاب میں کلاسیکی شاعری کی ایک کتاب الگ سے شامل تھی۔ ایک روز انہوں نے وردڈزورتھ کی ایک نظم کا اردو ترجمہ کرنے کا ہوم ورک دیا۔ اس شام ہماری طرف بجلی گئی ہوئی تھی ۔ اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے لالٹین کی روشنی میں بیٹھ کر ورڈزورتھ کی نظم ۔۔daffodils ۔۔ اور کسی اور شاعر کی نظم ۔۔Children۔۔۔ کا اردو میں منظوم ترجمہ کر ڈالا۔ اگلے دن جب ان کو دکھایا تو فرطِ حیرت و جوش سے کرسی سے کھڑے ہوگئے ۔ پوری کلاس کو میرے دونوں ترجمے سنائے اور اپنی جیب سے پانچ روپے نکال کر مجھے انعام میں دیئے۔ کئی دنوں تک ان ترجموں کی دھوم مچی رہی۔ انگریزی کے ایک اور استاد نے آکر ایک دن باقاعدہ مجھ سے تفتیشی انداز میں بات چیت کی تاکہ کسی ممکنہ سرقے یا بیرونی امداد کا سراغ لگا سکیں ۔:)

وہ پانچ روپے ایک عرصے تک میں نے بہت عقیدت کے ساتھ سنبھال کر رکھے۔ لیکن افسوس کہ ایک شام مٹکے والی قلفی کی محبت اُس عقیدت پر غالب آگئی ۔ 😋

دسویں جماعت تک میں اردو کے تمام اساتذہ شعرا کو پڑھ چکا تھا۔ اپنا جیب خرچ جمع کرکے کتابوں کی ایک دکان سے شاعری کی کتب خریدا کرتا تھا ۔ اس چھوٹی سی دکان کے مالک ایک ہندو ہوا کرتے تھے اور وہ صرف شعر و ادب کی کتابیں بیچا کرتے تھے۔ کلاسیکی نثر کی تمام قابلِ ذکر کتابیں انٹرمیڈیٹ کالج کے دو برسوں اور میڈیکل اسکول کے تین سالوں میں پڑھ ڈالیں ۔ سندھ عجائب گھر کی شمس العلماء داؤد ہالیپوتہ لائبریری سے عبداللہ اثری کی کتاب رہنمائے شاعر ی چرا کر علم عروض بھی اسی زمانے میں خود سیکھا۔
غالب ، فیض اور افتخار عارف شروع ہی سے میرے پسندیدہ شاعر ہیں۔ انہی کی کتابیں بار بار پڑھی ہیں اور اپنا سر انہی کی شاعری پر دُھنا ہے۔
ویسے بعض شعرا کی شاعری سن کر اُن کا سر بھی دُھن چکا ہوں ۔ لیکن وہ ایک الگ قصہ ہے۔ آپ کے سوال سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ 😐

اگر آپ یہ پوچھیں کہ کون سے شعرا پسند نہیں ہیں تو ان کی فہرست نسبتاً طویل ہوگی۔ اپنے علامہ اقبال اُن میں سرِ فہرست ہیں ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جی بھائی! میں بھی ایسی ہی کہانیوں کی بابت پوچھ رہا تھا، کہ ان ڈائجسٹوں میں سب سے خاصے کی چیز ترجمہ شدہ کہانیاں ہی ہوا کرتی تھیں۔
نک ویلوٹ کا بھی خوب یاد کرایا۔ اسی طرح ایڈگر نامی سراغ رساں کی کہانیاں بھی کبھی کبھار آیا کرتی تھیں۔ جیمز ہیڈلے چیز اور ارل سٹینلے گارڈنر کے ناولز سے بھی انہی ڈائجسٹوں میں ہی شناسائی ہوئی، جن کا ترجمہ اثر نعمانی کیا کرتے تھے۔
بازی گر بھی خوب سلسلہ تھا، ہم نے بھی کچھ اقساط پڑھیں، لیکن مکمل نہ پڑھ پائے۔ کہیں پڑھا تھا کہ یہ شکیل عادل زادہ صاحب خود تحریر کیا کرتے تھے۔
بالکل ۔ ایڈگر ایلن پو تو انگریزی جاسوسی ادب میں بڑا نام ہے۔یہاں اسکول کے نصاب میں داخل ہے۔ چیز اور گارڈنر کے ترجمے بھی ہوا کرتے تھے ۔ او ہنری کے ترجمے بھی یاد پڑتے ہیں۔
بازی گر شکیل عادل زادہ ہی نے لکھی تھی۔ لیکن شاید مکمل نہیں کرپائے ۔
 

یاز

محفلین
پوری کلاس کو میرے دونوں ترجمے سنائے اور اپنی جیب سے پانچ روپے نکال کر مجھے انعام میں دیئے۔ کئی دنوں تک ان ترجموں کی دھوم مچی رہی۔
بہت خوب جناب

اگر آپ یہ پوچھیں کہ کون سے شعرا پسند نہیں ہیں تو ان کی فہرست نسبتاً طویل ہوگی۔ اپنے علامہ اقبال اُن میں سرِ فہرست ہیں ۔
اس معاملے میں (بھی) ہم آپ سے شدید متفق ہیں۔
 

عدنان عمر

محفلین
ظہیر بھائی، جاسوسی ادب کے حوالے سے ایک سوال میرا بھی ہے۔ آپ نے اردو اور انگریزی میں لکھنے والے ہر بڑے اور شہرہِ آفاق مصنف کی جاسوسی و ایکشن و ایڈونچر کہانیاں اور ناول پڑھ رکھے ہیں۔
اس صنف میں آپ کا آل ٹائم فیورٹ رائٹر کون ہے؟ اور کیوں؟
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
یاز بھائی ، جاسوسی ادب سے میری مراد mystery ....detective... suspense وغیرہ کی اصناف ہیں ۔ بڑے بھائی سب رنگ ڈائجسٹ لایا کرتے تھے ۔ سسپنس اور جاسوس ڈائجسٹ میں لائبریری یا ادھر ادھر دوستوں سے لے کر پڑھ لیا کرتا تھا۔ نک ویلوٹ کی کہانیاں ہمیشہ پڑھتا تھا اور اچھی لگتی تھیں۔ اس کے علاوہ جو کہانیاں انگریزی سے ترجمہ ہوتی تھیں انہیں بھی پڑھا کرتا تھا۔ اردو افسانے اور ناول بہت بہت بہت ہی کم پڑھے کہ پسند نہیں آتے تھے ۔ اس کی تفصیلی وجہ آگے کسی سوال کے جواب میں لکھوں گا۔
سب رنگ ڈائجسٹ کا ایک سلسلہ بازیگر درمیان سے پرھنا شروع کیا تھا لیکن پھر سب رنگ ہی آہستہ آہستہ چھپنا بند ہوگیا۔ سو وہ بھی نامکمل رہ گیا ۔
آپ اپنے جوابات دیں۔۔۔ ہمارے ہم خود دے لیں گے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
گھر میں شاعری کا ماحول نہیں تھا ۔ البتہ سب سے بڑے بھائی مقالاتِ سر سید اور اسی قبیل کی خشک کتابیں پڑھا کرتے تھے ۔ :D
جہاں تک میری یاد داشت کام کرتی ہے مجھے پرائمری اسکول کے زمانے ہی سے شاعری اچھی لگتی تھی۔ نصابی کتب میں شامل نظمیں ایک ہی دفعہ پڑھ کر یاد ہوجاتی تھیں ۔ آٹھویں جماعت میں شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والے ایک دوست بن گئے۔ چنانچہ اردو شاعری اور کہانیاں لکھنا شروع کیں ۔ ایک نظم حکیم سعید کے نونہال میں بھی شائع ہوئی ۔
ہمارے انگریزی کے استاد وحید الدین مرحوم بہت شفیق اور قابل استاد تھے ۔ انگریزی کا شوق انہی کی تعلیم اور ترغیب کی وجہ سے ہوا۔نویں جماعت کے انگریزی نصاب میں کلاسیکی شاعری کی ایک کتاب الگ سے شامل تھی۔ ایک روز انہوں نے وردڈزورتھ کی ایک نظم کا اردو ترجمہ کرنے کا ہوم ورک دیا۔ اس شام ہماری طرف بجلی گئی ہوئی تھی ۔ اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے لالٹین کی روشنی میں بیٹھ کر ورڈزورتھ کی نظم ۔۔daffodils ۔۔ اور کسی اور شاعر کی نظم ۔۔Children۔۔۔ کا اردو میں منظوم ترجمہ کر ڈالا۔ اگلے دن جب ان کو دکھایا تو فرطِ حیرت و جوش سے کرسی سے کھڑے ہوگئے ۔ پوری کلاس کو میرے دونوں ترجمے سنائے اور اپنی جیب سے پانچ روپے نکال کر مجھے انعام میں دیئے۔ کئی دنوں تک ان ترجموں کی دھوم مچی رہی۔ انگریزی کے ایک اور استاد نے آکر ایک دن باقاعدہ مجھ سے تفتیشی انداز میں بات چیت کی تاکہ کسی ممکنہ سرقے یا بیرونی امداد کا سراغ لگا سکیں ۔:)

وہ پانچ روپے ایک عرصے تک میں نے بہت عقیدت کے ساتھ سنبھال کر رکھے۔ لیکن افسوس کہ ایک شام مٹکے والی قلفی کی محبت اُس عقیدت پر غالب آگئی ۔ 😋

دسویں جماعت تک میں اردو کے تمام اساتذہ شعرا کو پڑھ چکا تھا۔ اپنا جیب خرچ جمع کرکے کتابوں کی ایک دکان سے شاعری کی کتب خریدا کرتا تھا ۔ اس چھوٹی سی دکان کے مالک ایک ہندو ہوا کرتے تھے اور وہ صرف شعر و ادب کی کتابیں بیچا کرتے تھے۔ کلاسیکی نثر کی تمام قابلِ ذکر کتابیں انٹرمیڈیٹ کالج کے دو برسوں اور میڈیکل اسکول کے تین سالوں میں پڑھ ڈالیں ۔ سندھ عجائب گھر کی شمس العلماء داؤد ہالیپوتہ لائبریری سے عبداللہ اثری کی کتاب رہنمائے شاعر ی چرا کر علم عروض بھی اسی زمانے میں خود سیکھا۔
غالب ، فیض اور افتخار عارف شروع ہی سے میرے پسندیدہ شاعر ہیں۔ انہی کی کتابیں بار بار پڑھی ہیں اور اپنا سر انہی کی شاعری پر دُھنا ہے۔
ویسے بعض شعرا کی شاعری سن کر اُن کا سر بھی دُھن چکا ہوں ۔ لیکن وہ ایک الگ قصہ ہے۔ آپ کے سوال سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ 😐

اگر آپ یہ پوچھیں کہ کون سے شعرا پسند نہیں ہیں تو ان کی فہرست نسبتاً طویل ہوگی۔ اپنے علامہ اقبال اُن میں سرِ فہرست ہیں ۔
پوت کے پاؤں پالنے اور شاعر کے پاؤں پرائمری میں ہی نظر آجاتے ہیں۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
الکل ۔ ایڈگر ایلن پو تو انگریزی جاسوسی ادب میں بڑا نام ہے۔یہاں اسکول کے نصاب میں داخل ہے۔ چیز اور گارڈنر کے ترجمے بھی ہوا کرتے تھے ۔ او ہنری کے ترجمے بھی یاد پڑتے ہیں۔
ایڈگرالن پو اور اوہ ہنری سے میرا تعارف ابن انشا کے تراجم نے کروایا تھا۔۔۔ میں نے بہت وقت لگا کر انشا کے یہ تراجم دوبارہ ڈھونڈے ہیں۔۔۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
اپنی جیب سے پانچ روپے نکال کر مجھے انعام میں دیئے۔
کیسے کیسے اساتذہ ہوا کرتے تھے :unsure:، کیا کیا روایات تھیں:unsure:۔یہ سب زمانے کے ساتھ ساتھ ختم ہوئیں۔ ہمارے پاس تو کبھی کسی کو سنانے کو کوئی ایسا قصہ نہ ہو گا!!:noxxx:
یا اساتذہ کی کنجوسی۔۔جو بھی کہیں ہمیں تو سوکھی داد کے علاوہ کبھی کوئی پھوٹی کوڑی تک نہ ملی۔:moneyeyes::moneyeyes::moneyeyes:
میں لکھ دیا ہے۔ یہ نہ ہو کہ آپ سیریس ہو جائیں!! پانچ ڈالر بل بھجوانے کی کوشش کرنے لگیں۔۔:p
 
آخری تدوین:
کیسے کیسے اساتذہ ہوا کرتے تھے :unsure:، کیا کیا روایات تھیں:unsure:۔یہ سب زمانے کے ساتھ ساتھ ختم ہوئیں۔ ہمارے پاس تو کبھی کسی کو سنانے کو کوئی ایسا قصہ نہ ہو گا!!:noxxx:
یا اساتذہ کی کنجوسی۔۔جو بھی کہیں ہمیں تو سوکھی داد کے علاوہ کبھی کوئی پھوٹی کوڑی تک نہ ملی۔:moneyeyes::moneyeyes::moneyeyes:
میں لکھ دیا ہے۔ یہ نہ ہو کہ آپ سیریس ہو جائیں!! پانچ ڈالر بل بھجوانے کی کوشش کرنے لگیں۔۔:p
فلو، ہم تو اپنے شاگردوں کو دے دے کر بنکرپٹ ہوگئے ۔ لیکن سچ بتائیں تو ہم اوکھے سے اوکھے شاگرد کو چلانے میں مشہور بھی درپردہ اسی "رشوت" کی وجہ سے ہو پائے ہیں۔ایک اور لڑی میں ایک دو دن پہلے قاری صاحب اور سکول کے اساتذہ سے مار پیٹ کا ذکر کر رہے تھے، (اگرچہ انعامات بھی ملتے رہے)، لیکن ہم بحیثیت استاد صرف انعام دینے پر یقین رکھتے ہیں اور اگر بچہ پھر بھی نہ پڑھے تو ایسے لگتا ہے کہ پڑھائی کی خیر ہے مگر ان آبگینوں کو کبھی ٹھیس نہیں لگنی چاہیے۔ ہمیں آج تک سمجھ نہ آئی کہ اساتذہ اتنا زیادہ مار مار کے بچوں کو "سیدھا" کیوں کرتے تھے اور ہمیں لگتا ہے یہیں تو سسٹم "الٹنا" شروع ہوتا ہے جس کا خمیازہ سبھی بھگتتے تو ہیں لیکن ہر پرانی نسل پچھلی نسل کی عظمت میں رطب اللسان ضرور ہو رہی ہے مگر نئی نسل کو قرضوں میں جکڑے ہوئے ادارے اور نفسیاتی مسائل میں الجھے ہوئے ناصح ورثے میں مل رہے ہیں۔

فون سے محفل کے کسی ٹیکسٹ میں حوالہ ایڈ کرنے سے ہم قاصر ہیں اس لیے یونہی لنک پیسٹ کر رہے ہیں کہ اس تبصرے کا سیاق و سباق واضح کر پائیں:

'کسوٹی #24' لڑی کا مراسلہ https://www.urduweb.org/mehfil/threads/کسوٹی-24.121706/post-2611701
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
فلو، ہم تو اپنے شاگردوں کو دے دے کر بنکرپٹ ہوگئے ۔ لیکن سچ بتائیں تو ہم اوکھے سے اوکھے شاگرد کو چلانے میں مشہور بھی درپردہ اسی "رشوت" کی وجہ سے ہو پائے ہیں۔ایک اور لڑی میں ایک دو دن پہلے قاری صاحب اور سکول کے اساتذہ سے مار پیٹ کا ذکر کر رہے تھے، (اگرچہ انعامات بھی ملتے رہے)، لیکن ہم بحیثیت استاد صرف انعام دینے پر یقین رکھتے ہیں اور اگر بچہ پھر بھی نہ پڑھے تو ایسے لگتا ہے کہ پڑھائی کی خیر ہے مگر ان آبگینوں کو کبھی ٹھیس نہیں لگنی چاہیے۔ ہمیں آج تک سمجھ نہ آئی کہ اساتذہ اتنا زیادہ مار مار کے بچوں کو "سیدھا" کیوں کرتے تھے اور ہمیں لگتا ہے یہیں تو سسٹم "الٹنا" شروع ہوتا ہے جس کا خمیازہ سبھی بھگتتے تو ہیں لیکن ہر پرانی نسل پچھلی نسل کی عظمت میں رطب اللسان ضرور ہو رہی ہے مگر نئی نسل کو قرضوں میں جکڑے ہوئے ادارے اور نفسیاتی مسائل میں الجھے ہوئے ناصح ورثے میں مل رہے ہیں۔

فون سے محفل کے کسی ٹیکسٹ میں حوالہ ایڈ کرنے سے ہم قاصر ہیں اس لیے یونہی لنک پیسٹ کر رہے ہیں کہ اس تبصرے کا سیاق و سباق واضح کر پائیں:

'کسوٹی #24' لڑی کا مراسلہ https://www.urduweb.org/mehfil/threads/کسوٹی-24.121706/post-2611701
اساتذہ کی تربیت کا فقدان ہے۔۔ کسی کو معلوم ہی نہیں کہ استاد کا کیا کردار ہونا چاہیئے۔ اس لیے ماں باپ کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے کہ اپنے بچوں کی تعلیم کا صحیح بندوبست کریں اور اساتذہ پر نظر رکھیں۔
آپ یقینا ایک شفیق استاد رہی ہوں گی۔ مجھے یقین ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اساتذہ کی اکثر یت میں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کا احساس تک نہیں ۔ پاکستان میں تو جب کوئی جاب نہ ملے تو لوگ زیادہ تر ٹیچر بن جاتے ہیں۔۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آپ اپنے جوابات دیں۔۔۔ ہمارے ہم خود دے لیں گے۔
تمام ۔۔۔۔۔۔ لوگ ایک جیسا سوچتے ہیں ۔
خبردار! جو آپ نے خالی جگہ پر کی تو۔۔۔
پوت کے پاؤں پالنے اور شاعر کے پاؤں پرائمری میں ہی نظر آجاتے ہیں۔
اور جو شعرا پرائمری اسکول نہیں گئے ان کے پاؤں ؟!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
فلو، ہم تو اپنے شاگردوں کو دے دے کر بنکرپٹ ہوگئے ۔ لیکن سچ بتائیں تو ہم اوکھے سے اوکھے شاگرد کو چلانے میں مشہور بھی درپردہ اسی "رشوت" کی وجہ سے ہو پائے ہیں۔ایک اور لڑی میں ایک دو دن پہلے قاری صاحب اور سکول کے اساتذہ سے مار پیٹ کا ذکر کر رہے تھے، (اگرچہ انعامات بھی ملتے رہے)، لیکن ہم بحیثیت استاد صرف انعام دینے پر یقین رکھتے ہیں اور اگر بچہ پھر بھی نہ پڑھے تو ایسے لگتا ہے کہ پڑھائی کی خیر ہے مگر ان آبگینوں کو کبھی ٹھیس نہیں لگنی چاہیے۔ ہمیں آج تک سمجھ نہ آئی کہ اساتذہ اتنا زیادہ مار مار کے بچوں کو "سیدھا" کیوں کرتے تھے اور ہمیں لگتا ہے یہیں تو سسٹم "الٹنا" شروع ہوتا ہے جس کا خمیازہ سبھی بھگتتے تو ہیں لیکن ہر پرانی نسل پچھلی نسل کی عظمت میں رطب اللسان ضرور ہو رہی ہے مگر نئی نسل کو قرضوں میں جکڑے ہوئے ادارے اور نفسیاتی مسائل میں الجھے ہوئے ناصح ورثے میں مل رہے ہیں۔

فون سے محفل کے کسی ٹیکسٹ میں حوالہ ایڈ کرنے سے ہم قاصر ہیں اس لیے یونہی لنک پیسٹ کر رہے ہیں کہ اس تبصرے کا سیاق و سباق واضح کر پائیں:

'کسوٹی #24' لڑی کا مراسلہ https://www.urduweb.org/mehfil/threads/کسوٹی-24.121706/post-2611701
غمزدہ!
مریم افتخار، سماجی مسائل پر آپ کا مشاہدہ اور تجزیہ حیران کن حد تک وسیع اور گہرا ہوتا ہے۔ بعض اوقات مجھے لگتا ہے کہ آپ کو صحافت کے شعبے میں ہونا چاہیے تھا۔ اس پر مزید لکھنا چاہتا ہوں لیکن اب آج کا مختصرسا لنچ بریک ختم۔ :(
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ایڈگرالن پو اور اوہ ہنری سے میرا تعارف ابن انشا کے تراجم نے کروایا تھا۔۔۔ میں نے بہت وقت لگا کر انشا کے یہ تراجم دوبارہ ڈھونڈے ہیں۔۔۔
ابنِ انشا نے کئی انگریزی کتابوں کے تراجم کیے ہیں ۔ دان کی ہوٹی (Don- Quixote)کے قصے کا منظوم ترجمہ بنام " قصہ ایک کنوارے کا" بہت پر لطف اور اچھا کیا تھا۔
اس کا اختتامی شعر ابھی تک یاد ہے۔ لیکن محفل پر نہیں لکھا جاسکتا۔ :censored:
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کیسے کیسے اساتذہ ہوا کرتے تھے :unsure:، کیا کیا روایات تھیں:unsure:۔یہ سب زمانے کے ساتھ ساتھ ختم ہوئیں۔ ہمارے پاس تو کبھی کسی کو سنانے کو کوئی ایسا قصہ نہ ہو گا!!:noxxx:
یا اساتذہ کی کنجوسی۔۔جو بھی کہیں ہمیں تو سوکھی داد کے علاوہ کبھی کوئی پھوٹی کوڑی تک نہ ملی۔:moneyeyes::moneyeyes::moneyeyes:
میں لکھ دیا ہے۔ یہ نہ ہو کہ آپ سیریس ہو جائیں!! پانچ ڈالر بل بھجوانے کی کوشش کرنے لگیں۔۔:p
پتہ نہیں میں اپنے آپ کو مظلوم مظلوم سا کیوں محسوس کرر ہا ہوں اس وقت؟! :unsure::rolleyes: :D

اساتذہ امریکا کے ہوں یا کینیڈا کے سب کنجوس مکھی چوس ہی ہیں ۔ :D
آپ پانچ ڈالر سے بے فکر رہیں ۔ میں بڑا استاد ہوں، ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ :grin:
 

صابرہ امین

لائبریرین
پتہ نہیں میں اپنے آپ کو مظلوم مظلوم سا کیوں محسوس کرر ہا ہوں اس وقت؟! :unsure::rolleyes: :D

اساتذہ امریکا کے ہوں یا کینیڈا کے سب کنجوس مکھی چوس ہی ہیں ۔ :D
آپ پانچ ڈالر سے بے فکر رہیں ۔ میں بڑا استاد ہوں، ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ :grin:
یعنی کوئی امید پر نہیں آئے گی!! ہماری کہانی ادھوری ہی رہے گی!! چلیں کوئی بات نہیں محفل بھی تو بند ہو رہی ہے۔ باقی جگہوں پر ایسی کہانیاں کون سنتا ہے۔۔ :grin:
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میں خود کو مکمل مبتدی سمجھتی ہوں جو ابھی حروف تہجی سیکھ رہا ہے اور آنکھیں اور کان کھلے رکھتے ہوئے اچھی شاعری کی رمزیں سمجھ رہا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آیا کہ زمین تنگ کیسے ہوتی ہے اور کشادہ کیسے۔ کیا مجھ سے مبتدی کو کسی مثال سے واضح کریں گے؟ شاید بہت سا اٹکا ہوا کلام نکل پائے۔
زمین = ردیف+ قافیہ + وزن
وزن سے مراد بحر ہے۔
1۔ ہر شاعر کی طبیعت دو یا تین خاص بحر وں میں رواں ہوتی ہے یعنی اس کے لیے ان بحروں میں شعر کہنا آسان ہوتا ہے۔ وہ بحریں اس کی طبیعت کو موافق آتی ہیں ۔ تو سب سے پہلی بات تو یہ ہوئی کہ مبتدی کو چاہیے کہ وہ انہی اوزان یا بحور میں شعر کہے کہ جو اس کی طبیعت پر رواں اور مترنم ہوں ۔ مثلا اکثر شعرا اس بحر میں طبع آزمائی کرتے ہیں : فاعلاتن مفاعلن فعلن۔۔۔۔ابنِ مریم ہوا کرے کوئی ، دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے وغیرہ وغیرہ

2۔ کھلا قافیہ وہ ہوتا ہے کہ جس کے ہم قافیہ الفاظ بہت سارے ہوں ۔ مثلاً ہوا ، دعا ، صبا ، کہا ، چلا ، وغیرہ ۔ قافیہ کشادہ ہو تو خیال کی ادائیگی کے لیے بہت سارے قوافی میسر آجاتے ہیں ۔ اس کے برعکس اگر قافیہ
جنوں ، خوں ، سکوں، وغیرہ ہو تو اس میں شاعر کو کم قافیے دستیاب ہیں ۔

3۔ ردیف آسان اور ایسی منتخب کریں کہ خیال کی ادائیگی میں رکاوٹ کے بجائے آسانی پیدا کرے۔ مثلاً مذکورہ بالا غالب کے دو مصرعوں میں ردیف آسان ہے۔ اس کے بر عکس یہ مصرع دیکھیے:
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا
اس میں قافیہ خوں اور ردیف نہ نکلا ہے ۔ اب اس ردیف کو برقرار رکھتے ہوئے پانچ سات اشعار کہنا مبتدی کے لیےبہت مشکل ہوگا۔ یہ زمین تنگ ہے۔

خلاصۂ کلام یہ کہ بحر وہ منتخب کریں کہ جس پر آپ کی طبیعت اور زبان رواں ہو۔ قافیہ ایسا ہو کہ جس کے ہم قافیہ الفاظ بہت سارے ہوں ۔ ردیف ایسی ہو کہ اکثر قوافی کے ساتھ مل سکے اور بامعنی فقرہ بناسکے۔
امید ہے کہ وضاحت ہو گئی ہوگی۔ نہ ہوئی ہو تو پھر پوچھ لیجیے گا۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یعنی کوئی امید پر نہیں آئے گی!! ہماری کہانی ادھوری ہی رہے گی!! چلیں کوئی بات نہیں محفل بھی تو بند ہو رہی ہے۔ باقی جگہوں پر ایسی کہانیاں کون سنتا ہے۔۔ :grin:
اگر پانچ ڈالروں سے آپ کی کہانی مکمل ہوجاتی تو میں آج ہی حاتم تایا کی قبر پر لات مارتے ہوئے پانچ نہیں بلکہ چھ ڈالر بھجوادیتا لیکن بات وہی کہ محفل بند ہورہی ہے۔ سو اب خرچہ کرنے کا کیا فائدہ۔
صبر کریں۔ اللہ آپ کو ڈسکورڈ عطا فرمائے!
:D:cool:
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میری خوش قسمتی (؟) یہ رہی کہ میں امریکا چلا آیا ۔ یہاں زندگی نسبتاً سہل ہے ۔ معاشرہ ایک نظام کے تحت چل رہا ہے سو کچھ نہ کچھ ذہنی فرصت میسر آجاتی ہے ۔

امریکہ میں زندگی سہل کیسے ہے؟ کیا ترقی پذیر ممالک کی نسبت وہاں بہت زیادہ کولہو کے بیل نہیں بننا پڑتا؟
نہیں ۔ ایسا نہیں ہے ۔
خیر ، یہ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ آپ کا پیشہ کیا ہے۔ میں rheumatologist ہوں تو اپنی مرضی سے کم یا زیادہ کام کرسکتا ہوں۔
معاشرہ ایک نظام کے تحت چل رہا ہے ۔ چنانچہ وہ روز مرہ مسائل بالکل بھی نہیں ہیں کہ جن سے پاکستان میں بلا تخصیص ہر آدمی کو گزرنا پڑتا ہے ۔ ہر کام گھر بیٹھے ہوجاتا ہے ۔ جب ہر وقت اور ہر چیز کی پریشانیاں نہ ہو تو ذہنی فراغت میسر آجاتی ہے ۔
ویسے آپ کسی بھی پیشے میں ہوں کولہو کا بیل بننا یا نہ بننا آپ کی اپنی مرضی پر ہوتا ہے۔ چونکہ یہاں کم از کم تنخواہ کا ایک معیار مقرر ہے تو اس میں ہر آدمی زندگی کی بنیادی ضروریات خرید سکتا ہے اور گزارا کرسکتا ہے ۔ اگر انسان مادیت پرست نہ ہو اور زندگی میں قناعت اور اعتدال ہو تو روز و شب آرام سے گزرتے ہیں ۔ ہفتے میں دو چھٹیاں ملتی ہیں۔( بعض لوگوں کوان کے کام کی نوعیت کے مطابق شاید ایک چھٹی ملتی ہو)۔ سرکار کی طرف سے شہر میں سیر و تفریح کی اتنی سہولیات ہوتی ہیں کہ آپ ایک پیسا خرچ کیے بغیر بھی اپنے فارغ وقت میں لطف اندوز ہوسکتے ہیں ۔ پارک ، ساحل، کتب خانے ، عجائب گھر ، سیر و تفریح کے دیگر مقامات اور سرگرمیاں تقریباً ہر شہر میں ہوتی ہیں ۔ امن و امان کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ۔
آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں ۔ بیس بائیس سال پہلے میں ایک نسبتاً چھو ٹے شہر میں ایک اسپتال میں نوکری کے انٹرویو کے لیےگیا ۔ عموماً پورے دن کا پروگرام ہوتا ہے کہ جس میں بہت سار ےلوگوں سے ملنا ، اسپتال کا جائزہ لینا ، شہر کی مختلف جگہوں کا دورہ کرنا ، لنچ میٹنگ وغیرہ سب شامل ہوتا ہے۔ خیر ، اس سینئر ڈاکٹر سے ملاقات ہوئی ۔ باتوں کے دوران کہنے لگا کہ تم جب اپنی کار سڑک پر پارک کرو تو دروازہ غیر مقفل مت چھوڑ دینا۔ ہمیشہ لاک کرنا۔ میں ذرا مشوش ہوا ۔ پوچھا وہ کیوں ؟ تو کہنے لگا کہ کار کا دروازہ لاک نہ ہو تو لوگ کار کے اندر ٹماٹر ، توریاں اور دوسری سبزیاں رکھ جاتے ہیں ۔ اللہ اکبر! یہ غیر مسلموں کا حال ہے۔
یہاں اکثر لوگ اپنے بیک یارڈ میں سبزیاں اگاتے ہیں اور ضرورت سے زیادہ سبزیاں جاب پر لا کر لنچ روم میں رکھ دیتے ہیں ۔ جو چاہے لے جائے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی، جاسوسی ادب کے حوالے سے ایک سوال میرا بھی ہے۔ آپ نے اردو اور انگریزی میں لکھنے والے ہر بڑے اور شہرہِ آفاق مصنف کی جاسوسی و ایکشن و ایڈونچر کہانیاں اور ناول پڑھ رکھے ہیں۔
اس صنف میں آپ کا آل ٹائم فیورٹ رائٹر کون ہے؟ اور کیوں؟
کسی ایک کا نام لینا مشکل ہے ۔ میرے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ میں کسی ایک مصنف کا فین ہونے سے زیادہ اچھی تصنیف کا فین بن جاتا ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ آرتھر کونن ڈائل کی شرلاک ہومز کی کہانیاں آج بھی اچھی لگتی ہیں ۔ ویسے الیسٹر مکلین Alistair - MacLean کے اکثر ناول بہت پسند ہیں۔ اسٹیفن کنگ کے کئی ناول اچھے لگے۔
اردو میں تو ابنِ صفی کے مقابلے کا کوئی اور نہیں ۔
 
Top