مصطفیٰ زیدی کسی اور غم میں اتنی خلش نہاں نہیں ہے، مصطفیٰ زیدی

شعیب خالق

محفلین
کسی اور غم میں اتنی خلش نہاں نہیں ہے،
غم دل مرے رفیقو! غم رائیگاں نہیں ہے

کوئی ہم نفس نہیں ہے، کوئ رازداں نہیں ہے
فقط ایک دل تھا اب تک سو و ہ مہرباں نہیں ہے

کسی آنکھ کو صدا دو کسی زلف کو پکار و
بڑی دھوپ پڑرہی ہے کوئی سائباں نہیں ہے

انہی پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
مُصطفیٰ زیدی​
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ شعیب خالق صاحب یہ میری پسندیدہ ترین غزلوں میں سے ہے - مصطفیٰ زیدی بہت اچھے شاعر تھے - جوش ملیح آبادی کے شاگردِ خاص تھے - مجھے آخری شعر کھٹک رہا ہے کیا یہ ایسے نہیں‌ہے؟
انہی پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
 

الف عین

لائبریرین
درست ہے فرخ۔ اور یہ شعر ایسا ہی ہے جو اپنے خالق کو دور چھوڑ گیا ہے۔یعنی کم ہی لوگوں کو معلوم ہوگ کہ یہ شعر کس کا ہے۔
مصطفیٰ زیدی بھی ان شعراء میں سے تھے جن کو اب لوگ بھولتے جا رہے ہیں، جیسا میں نے کسی پوسٹ میں ذکر کیا تھا عزیز حامد مدنی وغیرہ کے نام کے ساتھ۔
شعیب اور فرخ، تمہارے پاس اور کتنا کلام ہے ان کا؟؟
اسش پر یاد آیا کہ یہ شعر بھی اپنے شاعر کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
ریڈیو کے کسی پروگرام میں مرحوم مینا کماری نازؔ نے یہ شعر پڑھا تھا اور اکثر لوگوں کو غلط فہمی ہو گئی ہے کہ یہ شعر مینا کماری کا ہے۔ لیکن یہ شعر بشیر بدر کا ہے۔ اور بشیر بدر کو پسند کرنے والے بھی یہ معلوم کرنے پر تعجب کرتے ہیں کہ اتنا مشہور شعر اور بشیر بدر کا!!
بشیر بدر کی اس غزل کا مطلع ہے
ہمارا دل سویرے کا سنہرا جام ہو جائے
چراغوں کی طرح آنکھیں جلیں جب شام ہو جائے
 

شعیب خالق

محفلین
بہت شکریہ شعیب خالق صاحب یہ میری پسندیدہ ترین غزلوں میں سے ہے - مصطفیٰ زیدی بہت اچھے شاعر تھے - جوش ملیح آبادی کے شاگردِ خاص تھے - مجھے آخری شعر کھٹک رہا ہے کیا یہ ایسے نہیں‌ہے؟
انہی پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

فرخ بھائی مصطفیٰ زیدی میرے بھی پسندیدہ شاعر ہے ۔ آخر ی شعر کے بارے میں مجھے بھی شک تھا اردو پوئنٹ سے جب میں نے یہ پڑھا تو ایسا ہی لکھا ہوا نظر آیا میں ٹھیک کردیتا ہوں
شکریہ
 

شعیب خالق

محفلین
درست ہے فرخ۔ اور یہ شعر ایسا ہی ہے جو اپنے خالق کو دور چھوڑ گیا ہے۔یعنی کم ہی لوگوں کو معلوم ہوگ کہ یہ شعر کس کا ہے۔
مصطفیٰ زیدی بھی ان شعراء میں سے تھے جن کو اب لوگ بھولتے جا رہے ہیں، جیسا میں نے کسی پوسٹ میں ذکر کیا تھا عزیز حامد مدنی وغیرہ کے نام کے ساتھ۔
شعیب اور فرخ، تمہارے پاس اور کتنا کلام ہے ان کا؟؟
اسش پر یاد آیا کہ یہ شعر بھی اپنے شاعر کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
ریڈیو کے کسی پروگرام میں مرحوم مینا کماری نازؔ نے یہ شعر پڑھا تھا اور اکثر لوگوں کو غلط فہمی ہو گئی ہے کہ یہ شعر مینا کماری کا ہے۔ لیکن یہ شعر بشیر بدر کا ہے۔ اور بشیر بدر کو پسند کرنے والے بھی یہ معلوم کرنے پر تعجب کرتے ہیں کہ اتنا مشہور شعر اور بشیر بدر کا!!
بشیر بدر کی اس غزل کا مطلع ہے
ہمارا دل سویرے کا سنہرا جام ہو جائے
چراغوں کی طرح آنکھیں جلیں جب شام ہو جائے
السلام علیکم
اعجاز صاحب
میں نے جب یہا ں مصطفٰی زیدی کی غزلیں‌ ڈھونڈنے کی کوشش کی تو مجھے کچھ بھی نہیں‌ ملا۔ تصویر حالت میں‌ میر ے پاس کچھ کلام ہے مصطفیٰ زیدی کا ۔ انشاء اللہ کل پرسو تک انھییں لکھ کر پوسٹ کردوں گا ۔
بشیر بدر کی یہ غزل بھی میرے ہے ۔
بہت شکریہ
 

فرخ منظور

لائبریرین
اعجاز صاحب مصطفی زیدی کا پہلے تو میرے پاس کافی کلام تھا لیکن اب شائد صرف"شہرِ آذر" ہی ہے - لیکن انکا کلام بازار میں دستیاب ہے - آپ حکم کیجیے گا میں کتابیں خرید لوں گا لیکن برقیانے کی فرصت نہیں‌ - لیکن شائد سکین کرسکوں - خیال کیا جاتا ہے کہ مصطفیٰ زیدی نے خودکشی کر لی تھی یا قتل لیکن طبعی موت نہیں‌تھی اسی حوالےسے ان کا ایک اور مشہور شعر
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

دستانے کی ترکیب شاعری میں شائد ہی کسی نے استعمال کی ہو - لیکن اتنی غیرشاعرانہ ترکیب کو زیدی نے بہت خوبصورتی سے استعمال کیا ہے -
 
غزل - کسی اور غم میں اتنی خلش نہاں نہیں ہے - مصطفٰی زیدی

غزل


کسی اور غم میں اتنی خلش نہاں نہیں ہے
غمِ دل مرے رفیقو ! غمِ رائیگاں نہیں ہے

کوئی ہم نفس نہیں ہے کوئی رازداں نہیں ہے
فقط ایک دل تھا اب تک سو وہ مہرباں نہیں ہے

مری روح کی حقیقت مرے آنسوؤں سے پوچھو
مرا مجلسی تبسم مرا ترجماں نہیں ہے

کسی زلف کو صدا دو، کسی آنکھ کو پکارو
بڑی دھوپ پڑ رہی ہے کوئی سائباں نہیں ہے

انہی پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

مصطفٰی زیدی​
 

خوشی

محفلین
کوئی ہم نفس نہیں ہے کوئی رازداں نہیں ہے
فقط ایک دل تھا اب تک سو وہ مہرباں نہیں ہے

مری روح کی حقیقت مرے آنسوؤں سے پوچھو
مرا مجلسی تبسم مرا ترجماں نہیں ہے


واہ بہت خوب بہت اچھے

بہت شکریہ اس شئیرنگ کے لئے صحرا جی
 
کسی اور غم میں اتنی خلش نہاں نہیں ہے​
غمِ دل مرے رفیقو ! غمِ رائیگاں نہیں ہے​
کوئی ہم نفس نہیں ہے کوئی رازداں نہیں ہے​
فقط ایک دل تھا اب تک سو وہ مہرباں نہیں ہے​
مری روح کی حقیقت مرے آنسوؤں سے پوچھو​
مرا مجلسی تبسم مرا ترجماں نہیں ہے​
کسی زلف کو صدا دو، کسی آنکھ کو پکارو​
بڑی دھوپ پڑ رہی ہے کوئی سائباں نہیں ہے​
انہی پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آؤ​
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے​
 
خیال کیا جاتا ہے کہ مصطفیٰ زیدی نے خودکشی کر لی تھی یا قتل لیکن طبعی موت نہیں‌تھی اسی حوالےسے ان کا ایک اور مشہور شعر
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

معلوماتی
 

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

کسی اور غم میں اتنی خلشِ نہاں نہیں ہے
غمِ دل مرے رفیقو، غمِ رائیگاں نہیں ہے

کوئی ہم نفس نہیں ہے، کوئی رازداں نہیں ہے
فقط ایک دل تھا اب تک سووہ مہرباں نہیں ہے

مری روح کی حقیقت مرے آنسوؤں سے پوچھو
مرا مجلسی تبسم مرا ترجماں نہیں ہے

کسی آنکھ کو صدا دو، کسی زلف کو پکارو
بڑی دھوپ پڑ رہی ہے کوئی سائباں نہیں ہے

انہیں پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کہیں کہکشاں نہیں ہے

(مصطفیٰ زیدی)

شہرِ آزر​
 
Top