آبی ٹوکول

محفلین
جزاک اللہ خیرا نظامی بھائی محمد علی جناح علیہ رحمہ بلا شبہ قائد اعظم ہی تھے قول کہ سچے بات کہ پکے عمل کہ کھرے
 

الف نظامی

لائبریرین
20861903_1976274372608989_2140493534895281546_o.jpg
 

الف نظامی

لائبریرین
آخر میں ہم قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کا وہ خطاب آپ کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں جو ان کے کردار کی سچائی کی سچی اور کھری شہادت کے طور پر تاریخ کے سینے پر چمک رہا ہے۔ یہ خطاب آپ نے 30 جولائی 1948 ء کو لاہور میں اسکاوٹ ریلی سے کیا تھا۔ آپ نے فرمایا :-​

" میں نے بہت دنیا دیکھ لی۔ اللہ تعالی نے عزت ، دولت ، شہرت بھی بے حساب دی۔ اب میری زندگی کی ایک ہی تمنا ہے کہ مسلمانوں کو باوقار و سر بلند دیکھوں۔ میری خواہش ہے کہ جب مروں تو میرا دل گواہی دے کہ جناح نے اللہ کے دین اسلام سے خیانت اور پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت سے غداری نہیں کی۔ مسلمانوں کی آزادی ، تیظیم ، اتحاد اور مدافعت میں اپنا کردارٹھیک ٹھیک ادا کیا اور میرا اللہ کہے کہ اے میرے بندے! بے شک تو مسلمان پیدا ہوا۔ بے شک تو مسلمان مرا "
 

الف نظامی

لائبریرین
اگست 1941 میں قائد اعظم نے راک لینڈ کے شاہی مہمان خانے میں طلبا اور نوجوانوں کو تبادلہ خیال کا موقع مرحمت فرمایا اور بیماری کے باوجود پون گھنٹہ تک گفتگو کرتے رہے۔ اس موقع پر نواب بہادر یار جنگ بھی موجود تھے۔ جناب محمود علی بی اے نے یہ گفتگو ریکارڈ کی اور اورئینٹ پریس کو بھیجی۔ اس گفتگو میں قائد اعظم سے سوالات بھی کیے اور قائد اعظم نے ان کے جوابات مرحمت فرمائے۔
سوال: مذہب اور مذہبی حکومت کے لوازمات کیا ہیں؟
جواب:
قائد اعظم نے فرمایا: جب میں انگریزی زبان میں مذہب کا لفظ سنتا ہوں تو اس زبان اور قوم کے محاورہ کے مطابق میرا ذہن "خدا اور بندے" کی باہمی نسبتوں اور روابط کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ میں نہ تو کوئی مولوی ہوں ، نہ مجھے دینیات میں مہارت کا دعوی ہے البتہ میں نے قرآن مجید اور اسلامی قوانین کے مطالعہ کی اپنے طور کوشش کی ہے۔ اس عظیم الشان کتاب یعنی قرآن مجید میں اسلامی زندگی کے متعلق ہدایات کے بارے میں زندگی کا روحانی پہلو ، معاشرت ، سیاست ، غرض انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو قرآن کریم کی تعلیمات کے احاطہ سے باہر ہو۔
بحوالہ:
1- ماہنامہ "المعارف" قائد اعظم نمبر ، نومبر -دسمبر 1976 صٖفحہ 72 تا 74
2- قائد اعظم اور قرآن فہمی ، صفحہ 66 از محمد حنیف شاہد ، نظریہ پاکستان فاونڈیشن لاہور
 
جزاک اللہ نظامی بھائی ۔ آپ کا یہ دھاگہ منافق ن لیک اور ان ہمنواؤں کے ڈھکے چھپے ایجنڈے پر گہری چوٹ ہے جو ملکی اساس کا بیڑا غرق کرنا چاہتے ہیں۔
 
فرمان قائد
اب ہم سب پاکستانی ہیں اور ہم میں سےکوئی بھی سندھی ، بلوچی ، بنگالی ، پٹھان یا پنجابی نہیں ہے۔ ہمیں صرف اور صرف اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہونا چاہئیے۔
(15 جون، 1948)
 
فرمان قائد
اب ہم سب پاکستانی ہیں اور ہم میں سےکوئی بھی سندھی ، بلوچی ، بنگالی ، پٹھان یا پنجابی نہیں ہے۔ ہمیں صرف اور صرف اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہونا چاہئیے۔
(15 جون، 1948)
لوگ کچھ بھی کہتے رہیں حقیقت یہ ہے کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں نسل پرستی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
 
یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم نے پاکستان کے نظام میں مغربی جمہوریت کی کئی بار نفی فرمائی۔قائد اعظم کی تقاریر اٹھا کر دیکھ لیں ہمیں ہر بیان میں اسلام اور قرآنی نظام کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
اسلام میں نیشنل ازم کا کوئی تصور نہیں ہے۔ یہ ایک مغربی آئیڈیولوجی ہے۔ اسلام میں امت کا تصور ہے جبکہ قائد اعظم نے ایک مسلم نیشنل موومنٹ کیلئے جدوجہد کی۔
 
پاکستان کا مطلب کیا
لا الٰه الا الله
یہ وہ نعرہ ہے جس نے قیامِ پاکستان کی تحریک کے دوران مسلمانوں میں جوش و خروش پیدا کیا تھا ۔
یہ نعرہ جماعت اسلامی نے پہلی بار پاکستان کے قیام کے بعد احمدی مخالف تحریک کے دوران لگایا تھا۔
 
اسی لئے ووٹ نسلی بنیادوں پر دیتے ہیں۔
اکثر ایسا نہیں ہوتا، اگر زیادہ تر ایسا ہوتا تو پیپلز پارٹی پورے ملک سے ووٹ نہ لے کر حکومت نہ بنا پاتی، نہ ہی ن لیگ خیبر پی کے اور بلوچستان سے بھی زیادہ ووٹ حاصل کرپاتی۔
نواز شریف کی دائمی نااہلی سے قبل تک آپ نون لیگ کے شیدائی تھے، اب یہ منافق ہو گئی ہے۔
شیدائی تو میں کبھی کسی بھی سیاسی جماعت کا نہیں رہا، نواز کے لئے نرم گوشہ ضرور تھا مگر جب موجودہ دور حکومت میں جب نواز رفتہ رفتہ پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے کے لئے پیش رفت شروع کی تو قابل نفرت ہوگیا۔ بلکہ اعلانیہ اس کا اظہار بھی کیا تھا۔
 
Top