آتش یہ آرزو تھی تجھے گُل کے رُوبرُو کرتے - آتش

فرخ منظور

لائبریرین
یہ آرزو تھی تجھے گُل کے رُوبرُو کرتے
ہم اور بلبل ِبے تاب گفتگو کرتے

پیام بر نہ میّسر ہوا تو خوب ہوا
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے

مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے

ہمیشہ رنگ زمانہ بدلتا رہتا ہے
سفید رنگ ہیں آخر سیاہ مُو کرتے

لٹاتے دولتِ دنیا کو میکدے میں ہم
طلائی ساغر مئے نقرئی سبُو کرتے

ہمیشہ میں نے گریباں کو چاک چاک کیا
تمام عمر رفو گر رہے رفو کرتے

جو دیکھتے تری زنجیر زلف کا عالم
اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے

بیاضِ گردنِ جاناں کو صبح کہتے جو ہم
ستارہء سحری تکمہء گلُو کرتے

یہ کعبہ سے نہیں بے وجہ نسبتِ رخ ِیار
یہ بے سبب نہیں مردے کو قبلہ رُو کرتے

سکھاتے نالہء شب گیر کو در اندازی
غمِ فراق کا اس چرخ کو عدو کرتے

وہ جانِ جاں نہیں آتا تو موت ہی آتی
دل و جگر کو کہاں تک بھلا لہو کرتے

نہ پوچھ عالمِ برگشتہ طالعی آتش
برستی آگ، جو باراں کی آرزو کرتے

(خواجہ حیدر علی آتش)
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ شمشاد صاحب اور وارث صاحب - مشتاق احمد یوسفی نے شائد زرگزشت میں‌ ایک کردار کے بارے میں‌لکھا تھا-
"گالیاں وہ اپنی مادری زبان میں‌ ہی دینا پسند کرتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ "زبانِ غیر سے کیا شرح ِآرزو کرتے" :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
جی ہاں یقینا" آبِ گم ہوگا - اسی لیے شائد کا لفظ استعمال کیا تھا - بہت شکریہ تصحیح کے لیے - :) مگر آپ نے شائد تصحیح کے چکر میں‌بات کا مزا نہیں‌لیا- :)
 

جیہ

لائبریرین
آتش کے اس غزل نے ناک میں دم کردیا ہے۔ میٹرک میں، ایف ایس سی اور بعد میں بی اے میں اس غزل کی تشریح یاد کر کرکے سر میں درد ہوتا تھا۔ اب یہاں بھی پیچھا نہیں چھوڑتے۔ آتش نے کچھ اور بھی شاعری کی ہے کہ نہیں اپنی لائبریری سے دیوان آتش نکال کر دیکھنا پڑے گا:)

ویسے امانت علی خان خوب گائی ہے یہ غزل۔

ایک اور بات : سخنور صاحب نے بلبلِ بیتاب درج کیا ہے یعنی بلبل کے لام پر اضافت کے ساتھ مگر شعر کا جو مزہ بغیر اضافت کے ہیں وہ اضافت کے ساتھ کہاں۔

یہ آرزو تھی تجھے گُل کے رُوبرُو کرتے
ہم اور بلبل، بے تاب گفتگو کرتے

یعنی ہم اور بلبل جوش و خروش کے ساتھ بحث کرتے کہ کون زیادہ حسین ہے محبوبِ‌آتش یا گلاب کا پھول
 

محمد وارث

لائبریرین
ایک اور بات : سخنور صاحب نے بلبلِ بیتاب درج کیا ہے یعنی بلبل کے لام پر اضافت کے ساتھ مگر شعر کا جو مزہ بغیر اضافت کے ہیں وہ اضافت کے ساتھ کہاں۔

یہ آرزو تھی تجھے گُل کے رُوبرُو کرتے
ہم اور بلبل، بے تاب گفتگو کرتے

یعنی ہم اور بلبل جوش و خروش کے ساتھ بحث کرتے کہ کون زیادہ حسین ہے محبوبِ‌آتش یا گلاب کا پھول


آپ کا مزہ دوبالا ہو گیا لیکن شاعر اور شعر دونوں کا خون ہو گیا :)
 

شمشاد

لائبریرین
سخنور بھائی میں نے اس شعر کو سمجھا بھی اور مزہ بھی لیا "زبانِ غیر سے کیا شرح ِآرزو کرتے"۔
اس میں کوئی شک نہیں جو مطلب اپنی زبان میں ادا ہو سکتا ہے وہ نہ تو کسی نامہ بر کی زبان سے ادا ہو سکتا ہے اور نہ ہی کسی دوسری زبان میں ادا ہو سکتا ہے۔

ایک اور جگہ پیر یوسفی صاحب فرماتے ہیں " گالی گنتی اور گندہ لطیفہ " اپنی ہی زبان میں ہی مزہ دیتے ہیں۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ جویریہ صاحبہ، اور بہت شکریہ وارث صاحب کہ آپ نے میرے منہہ کی بات چھین لی - بہت شکریہ ضبط اور بہت شکریہ شمشاد صاحب آپ نے اچھا اضافہ کیا -
 
یہ آرزو تھی تجھے گل کے رُوبرو کرتے- آتش

یہ آرزو تھی تجھے گل کے رُوبرو کرتے
ہم اور بلبلِ بے تاب گفتگو کرتے
پیام بَر نہ میّسر ہوا، تو خوب ہوا
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے
میری طرح سے مَہ و مِہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے
جو دیکھتے تیری زنجیر زلف کا عالَم
اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے
نہ پوچھ عالمِ برگشتہ طالعی آتش
برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے
 

چنچل راج

محفلین
کوئی اس کی تشریح کردے گا، پلیز؟

یہ آرزو تھی تجھے گُل کے رُوبرُو کرتے
ہم اور بلبل ِبے تاب گفتگو کرتے

پیام بر نہ میّسر ہوا تو خوب ہوا
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے

مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے

ہمیشہ رنگ زمانہ بدلتا رہتا ہے
سفید رنگ ہیں آخر سیاہ مُو کرتے

لٹاتے دولتِ دنیا کو میکدے میں ہم
طلائی ساغر مئے نقرئی سبُو کرتے

ہمیشہ میں نے گریباں کو چاک چاک کیا
تمام عمر رفو گر رہے رفو کرتے

جو دیکھتے تری زنجیر زلف کا عالم
اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے

بیاضِ گردنِ جاناں کو صبح کہتے جو ہم
ستارہء سحری تکمہء گلُو کرتے

یہ کعبہ سے نہیں بے وجہ نسبتِ رخ ِیار
یہ بے سبب نہیں مردے کو قبلہ رُو کرتے

سکھاتے نالہء شب گیر کو در اندازی
غمِ فراق کا اس چرخ کو عدو کرتے

وہ جانِ جاں نہیں آتا تو موت ہی آتی
دل و جگر کو کہاں تک بھلا لہو کرتے

نہ پوچھ عالمِ برگشتہ طالعی آتش
برستی آگ، جو باراں کی آرزو کرتے

(خواجہ حیدر علی آتش)
 
Top