کاشفی

محفلین
غزل
(ضاؔمن جعفری)
ہمارے بعد، نہ جانے کِدَھر گئے ہَوں گے
خُلوص و مہر و وفا در بَدَر گئے ہَوں گے

وہ میرا حلقہِ احباب کیا ہُوا ہوگا
وہ میرے لعل و جواہر بکھر گئے ہوں گے

جو شوق و عجلتِ منزل میں تھے نہ ڈھونڈ اُن کو
وہ قافلے تو کبھی کے گذر گئے ہَوں گے

نہ معذرت نہ ندامت، تم اپنی فکر کرو
تمہارے ہاتھ مرے خوں میں بھر گئے ہوں گے

کوئی تَو منزلِ جاناں پہ سرخ رُو پہنچا
نہیں تھے ہم نہ سہی، ہَمسَفَر گئے ہَوں گے

کوئی بھی تاج محل ہو میں سوچتا ہُوں یہی
نجانے کتنوں کے دستِ ہُنَر گئے ہوں گے

یونہی تو سر نہ ہوئی ہوگی منزلِ مقصود
ہزاروں راہِ طَلَب ہی میں مر گئے ہوں گے

ہمارے بعد سکوں سب کوہوگیا ہوگا
چڑھے ہوئے تھے جو دریا اُتَر گئے ہوں گے

فرازِ دار سے ضاؔمن! نظر نہ آیا کوئی
سکونِ قلب سے احباب گھر گئے ہوں گے
 
Top