کاشفی

محفلین
طرحی غزل
(ضاؔمن جعفری)
کیسے اپنے کو سَمیٹا ہوگا
وہ اگر ٹُوٹ کے بِکھرا ہوگا

ایک رَٹ، دل نے لگا رکّھی ہے
" چاند کس شہر میں اُترا ہوگا"
(ناصرؔ کاظمی)

نئی دولت کوئی ہاتھ آئی ہے؟
میرے دل کا کوئی ٹکڑا ہوگا!

چاند تاروں کو ہَٹا دے کوئی
یہ مری آہ کا رَستا ہوگا

دولتِ غم ہے تمہارے دم سے
تم نہیں ہو گے توپھر کیا ہوگا

اب ہیں اہداف، خلوص اور وفا
اب ہر اِک زخم ہمارا ہوگا

زندگی، رہنِ گماں ہے، ضاؔمن!
وہ مجھے دیکھنے آتا ہوگا
 
Top