کاشفی

محفلین
غزل
(محمد حسن زیدی)
کیا وفا کی حیثیت تیری جفَا کے سامنے
بجھ ہی جاتا ہے دِیا آخِر ہوا کے سامنے

دل کے دامن میں پلٹ آئیں خزائیں اس طرح
پھول زخموں کے کھِلیں جیسے صبا کے سامنے

کیا قلوپطرہ و عذارا لیلیٰ و شیریں بھی کیا
ماند تھیں ساری ہی اُس اک مہ لقا کے سامنے

اک جھلک میں ڈھیر کردیتا ہے وہ عُشاق کو
کون ٹھہرے شوخ کے ناز و اَدا کے سامنے

ہم بھی اُن سے پیار کا اظہار کرتے روبَرو
بات ہم سے وہ کبھی کرتے جو آکے سامنے

سُنتے ہیں واں تابِ نظارا کسی کو بھی نہیں
کیا ملے گا اے حسن مجھ کو بھی جا کےسامنے
 
Top