داغ کوئی کلمہ بھی مرے منہ سے نکلنے نہ دیا - داغ دہلوی

کاشفی

محفلین
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)

کوئی کلمہ بھی مرے منہ سے نکلنے نہ دیا
وہ لٹایا مجھے قاتل نے سنبھلنے نہ دیا

نفسِ سَرد کی تاثیر شبِ غم دیکھو
شمع کو تابہ سحر میں نے پگھلنے نہ دیا

بدگماں تھا کہ تپ ہجر نہ کم ہوجائے
اُس نے کافور مری لاش پہ ملنے نہ دیا

اس جفا پر یہ وفا ہے کہ تمہارا شکوہ
دل میں رہنے نہ دیا منہ سے نکلنے نہ دیا

شوق نے راہ محبت میں اُبھارا لیکن
ضعف نے ایک بھی گرتے کو سنبھلنے نہ دیا

عقل کہتی تھی نہ لکھ دفتر مطلب اُس کو
شوق نے ایک بھی مضمون بدلنے نہ دیا

اے شبِ ہجر ترا خلق پہ احسان ہوگا
حشر کے دن کو اگر تونے نکلنے نہ دیا

بدگمانی نے نہ چھوڑا اُسے تنہا چھوڑوں
میں نے قاصد کو الگ راہ میں چلنے نہ دیا

کسی صورت نہ بچا عشق کی رسوائی سے
کہ مجھے نام بھی غیرت نے بدلنے نہ دیا

چھین لیتا اُسے میں حشر کے دن ضد کر کے
کیا کروں مجھ کو فرشتوں نے مچلنے نہ دیا

بزم ِ اغیار میں اُس شوخ نے عیاری سے
کیا ہی اعجاز کیا داغ کو جلنے نہ دیا
 
Top