کاشفی

محفلین
غزل
جوش ملیح آبادی

نہ جانے رات کو کیا میکدے میں مشغلہ تھا
کہ ہر نفس میں قیامت کا جوش و ولولہ تھا

نگاہ، یار کی یوں اُٹھ رہی تھی جُھک جُھک کر
زمین رقص میں تھی، آسماں پہ زلزلہ تھا

لرز رہے تھے شگوفے، تڑپ رہے تھے نُجوم
چھڑا ہوا نہیں معلوم کون مسئلہ تھا

کبھی ہلال چمکتا تھا اور کبھی خنجر
میانِ عشق و جوانی عجیب مرحلہ تھا

تپاں تھا دائرہء خاک و عالمِ ارواح
نیاز و ناز میں کیا جانے کیا معاملہ تھا

زباں پر آئیں تو ہر حرف سے لہو ٹپکے
ہر ایک سانس میں اُن ولولوں کا قافلہ تھا

دل و نگار میں تھی کچھ لطیف گفت و شنُود
نہ جانے شکرِ کرم تھا کہ شکوہ و گلہ تھا

اُدھر تھی لرزشِ صہبا، اِدھر خرامِ نگار
نرالی بحث چھڑی تھی، نیا مقابلہ تھا

بساطِ خاک سے تااوجِ ثابت و سیّار
شمیم کاکلِ عنبرفشاں کا سلسلہ تھا

ترانہ ریز تھی نبضِ حیات کی جنبش
ضمیر شب میں وہ پنہاں خروش و ولولہ تھا

ہزار شکر ذرا بھی کمی نہ کی اے جوش
اگرچہ دیکھنے میں یار ، تنگ حوصلہ تھا​
 
Top